ایک عرصہ سے جامعات میں ہیجان خیزی پھیلی ہوئی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ انتظامیہ اور فیکلٹی شکایت کر رہی ہے کہ حکومت کی طرف سے سیاسی دخل اندازی اور جامعات کی خود مختاری کو کم سے کم کرنے بلکہ سلب کرنے کا سلسلہ زوروں پر ہے جبکہ مالی تعاون کا فقدان ہے‘ بے چینی اور عدم اطمینان کی اس کیفیت میں جو نئی بات سامنے آئی ہے وہ جامعہ پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس نے کہہ دی ہے ‘ موصوف کا کہنا ہے کہ یہ بات اور شکوہ بجا نہیں کہ یونیورسٹی حکومتی مالی تعاون سے محروم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مالی تعاون فراہم کیا گیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کا وعدہ ہے کہ ہر مہینے 135 ملین گرانٹ فراہم کرے گی ساتھ ہی 300 ملین کی خصوصی گرانٹ کی فراہمی کا یقین بھی دلایا گیا ہے ۔ وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی نے حکومت کے کہنے پر اپنا دس سالہ پلان مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر دیا ہے جس کے اخراجات کا تخمینہ چار ہزار ملین ہے موصوف نے شکوہ کیا ہے کہ فیکلٹی اور نان مینجنگ سٹاف جامعہ کو مالیاتی بحران سے نکالنے کےلئے ناگزیر مشترکہ کوششوں میں سنجیدہ نہیں بلکہ اجتماعی مسائل کے حل اور جامعہ کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کر دینے کی بجائے ذاتی اور برادری کے مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے ‘ وائس چانسلر نے یونیورسٹی ملازمین کی مراعات میں کٹوتی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وباءکے سبب ساری دنیا سمیت پاکستان میں بھی تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لہذا ایسے میں چیلنج سے نمٹنے اور مشکلات پر قابو پانے میں ہر ایک کو حصہ ڈالنا ہوگا انہوں نے استفسار کیا کہ جب یونیورسٹی آئینی اور قانونی مدد پر صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہے تو پھر ہم مراعات کیونکروفاقی حکومت کے ریٹ کے مطابق حاصل کر سکتے ہیں؟ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ یہ کٹوتی تو مالی اخراجات کو قدرے کم کرنے کےلئے یونیورسٹی کی طرف سے ایک قربانی ہے جو کہ سب نے مشترکہ طور پر دے دی ہے۔ سنڈیکیٹ نے نہ صرف اس کی بلکہ اساتذہ اور دوسرے ملازمین کی ترقی اور تقرری کو قدرے مﺅخر کرنے کی بھی کثرت رائے سے منظوری دیدی ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک یہ بات مناسب نہیں تھی کہ ایک طرف تو یونیورسٹی مالی ابتری کے سبب اپنے ملازمین کو محض بیسک پے دے رہی ہو اور دوسری جانب ترقیاں اور تقرریاں کرتی رہے ۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ تمام مسائل حل ہوں گے‘ ترقیاں اور تقرریاں بھی ہوں گی جبکہ مالی بحران پر بھی قابو پا لیا جائے گا بشرطیکہ ہماری مشترکہ کاوشیں جاری ہوں ۔ حکومت کا تعاون حاصل رہے اور ہم میں سے ہر ایک جامعہ کی بہتری اور مفاد کو اپنے ذاتی مفاد اور خواہش پر ترجیح دے۔ جامعات کی اس دگرگوں حالت میں زرعی یونیوسٹی کے اساتذہ سلیکشن بورڈ کے انعقاد میں تاخیر‘ فیکلٹی میں خالی آسامیوں کے پر نہ ہونے ا ور رجسٹرار سے اختلاف کو لے کر تین ہفتے احتجاج پر رہے تاہم فیکلٹیز ڈینز کی ثالثی سے انتظامیہ کے ساتھ مفاہمت کو پہنچ گئے اس طرح اسلامیہ کالج کے درجہ چہارم اور درجہ سوئم ملازمین نے اپنے ہفتے بھر کا احتجاج سنیئر ایلو مناٹی ایسوسی ایشن کے صدر حاجی محمد زمان محمد زئی اور یونیورسٹی ملازمین کی صوبائی فیڈریشن کے صدر حاجی صلاح الدین احمد کی کوششوں سے ختم کر دیا البتہ اساتذہ اب بھی کیمپ لگا کر دھرنا احتجاج کر رہے ہیں جبکہ ایسی ہی صورتحال انجینئرنگ یونیورسٹی کا بھی ہے جہاں پر تمام تر نان ٹیچنگ سٹاف اپنی اکلوتی ایسوسی ایشن کی کال پر گزشتہ ہفتے سے تالے لگا کر احتجاج پر نکلے ہوئے ہیں ان کے مطالبات اور بھی ہوں گے مگر سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ جامعات ماڈل ایکٹ پر عمل درآمد کر کے تمام انتظامی پوسٹوں سے اساتذہ کو فارغ کیا جائے ان کا بڑانشانہ ٹریژرر شپ ہے جہاں پر نیک محمد خان کی سبکدوشی کے بعد شعبہ انڈسٹریل انجینئرنگ کے پروفیسر ڈاکٹر مصباح اللہ کوئی ٹکہ پیسہ لئے بغیر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح جامعہ پشاور کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر یورید احسن ضیاءبھی ہیں ‘ موصوف قائد اعظم کامرس کالج کے پروفیسر اور پرنسپل ہیں لیکن رجسٹرار کی حیثیت سے کام بغیر کسی معاوضے کے کر رہے ہیں ۔ اب قابل توجہ امر یہ ہے کہ جب یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہوں ‘ مراعات اور اپنے مستحق طلباءکو سکالر شپ کےلئے مالی وسائل نہ ہوں اور ایسے میں ایکٹ کے مطابق تمام تر انتظامی پوسٹوں کو پر کیا جائے اور دوسری طرف اسلام آباد سے جامعات کو ماہانہ گرانٹ کا چیک بیس پچیس فی صد ملتا رہے تو سوچنے کا مقام ہے کہ دوسروں کو چھوڑ کر ان انتظامی ملازمین میں گریڈ 18 سے 20 تک کے جو افسران ہوں گے ان کی لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور الاﺅنسز‘ رہائش ‘ گاڑیوں اور دفاتر کے اخراجات کیسے اور کہاں سے پورے ہوں گے؟ مالی ابتری کی موجودہ صورتحال میں جو اساتذہ اپنی تدریسی اور تحقیقی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انتظامی پوسٹیں چلارہے ہیں اور ان میں ایسے پروفیسرز بھی ہیں جو اپنی اضافی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں لے رہے ہیں درحقیقت وہ یونیورسٹی پر احسان کر رہے ہیں۔ اب اگر کسی رجسٹرار یا ٹریژرر کی پوسٹ پر ایڈیشنل یا ڈپٹی کو بٹھا دیا جائے تو ان کی پہلی والی کرسی خالی نہیں ہوگی؟ یقینا ہوگی اور جب اسے پر کریں گے تو اخراجات کہاں سے آئیں گے؟