انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شروع کئے گئے آپریشن ردالفساد کو چار سال مکمل ہوگئے ہیں ‘سکیورٹی اداروں نے اس دوران جہاں ایک طرف ہزاروں کاروائیاں کرکے حملہ آوروں کے ٹھکانے تباہ اور ختم کئے وہاں ناقابل رسائی علاقوں کو ریاستی رٹ میں لانے اور تعمیر نو کیلئے بھی اقدامات کئے گئے اس آپریشن کا22فروری 2017 ءکو باقاعدہ آغاز کیاگیا تھا اس کا بنیادی مقصد ان تنظیموں اور گروپوں کا خاتمہ کرکے ریاستی رٹ قائم کرنا تھا جو کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے اس آپریشن کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا ہوا تھا تاہم خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی گئی کیونکہ ان دو صوبوں میں متعدد گروپوں کے مراکز اور ٹھکانے تھے اور متعدد آپریشنز کے باوجود یہاں حملے ہو رہے تھے اس آپریشن کا ایک خاصہ یہ رہا کہ اس کے دوران فوجی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کی جڑیں کاٹنے پر بھی توجہ دی گئی جبکہ اسکے نتیجے میں سول اداروں کو فعال بنانے اور ناقابل رسائی علاقوں کو حکومتی رٹ میں لانے کے اقدامات پر بھی توجہ دینے کی کوشش کی گئی دستیاب معلومات کے مطابق اس آپریشن کے دوران دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں اور ان کے سیلز کو ختم کرنے کے علاوہ دیگر گروپوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا اوران گروپوں پر پابندی سخت کی گئیں جو کہ نام بدل کر کام کر رہے تھے دستیاب ڈیٹا کے مطابق آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں5600 دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو ہلاک کر دیاگیا13100 مسلح دہشت گردوں سے ہتھیار ڈلوائے گئے جبکہ 2000 سے زائد حملہ آور گرفتار کئے گئے اسکے علاوہ7400 مشتبہ افراد بھی گرفتار کئے گئے جبکہ سینکڑوں کا ٹرائل کرکے انکو سخت سزائیں دی گئیں حکام کے مطابق آپریشن کے دوران450 نوجوان شہید ہوگئے تقریباً1500 مختلف کاروائیوں اور جھڑپوں کے نتیجے میں زخمی ہوئے ان چار برسوں میں دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروپوں کے مختلف حملوں کے دوران تقریباً948 عام شہریوں کی شہادتیں ہوئیں تاہم حملوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی رہی حکومتی ذرائع کے مطابق آپریشن ردالفساد کے دوران خیبرپختونخوا کے قبائلی اور بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں تقریباً900 محدود اور محفوظ ٹھکانے تباہ کئے گئے جبکہ سندھ اور پنجاب میں بھی رینجرز اور دوسری پیراملٹری فورسز کے دوران کاروائیاں کی گئیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر برس حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی رہی اور سال2000 ءکے دوران2019 ءکے مقابلے میں دہشت گرد کاروائیوں کی تعداد میں 41فیصد کی کمی رپورٹ کی گئی ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس ضمن میں گزشتہ روز اپنی ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس آپریشن کے بہت مثبت نتائج نکل آئے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران امن وامان اور قومی سلامتی کی مجموعی صورتحال بہت بہتر رہی انہوں نے بریفنگ کے دوران گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے ایک این جی او کی4خواتین کی ہلاکت سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات ہو رہی ہیں تاہم ہر واقعے کو دہشت گردی کا نتیجہ قرار دینا درست نہیں ہے بعض واقعات کے دوسرے اسباب بھی ہوتے ہیں میجر جنرل بابر افتخار نے پختونخوا کے قبائلی علاقوں کی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہاں فورسز پر گزشتہ کئی مہینوں کے دوران متعدد حملے کئے گئے جسکے نتیجے میں درجنوں جوان شہید اور زخمی ہوئے تاہم فورسز نے موثر کاروائیاں اور ٹارگٹڈ آپریشن کرکے امن وامان کی صورتحال کو بگڑنے نہیں دیا اور اسکے ساتھ حکومت نے سول اداروں کی فعالیت اور تعمیر نو پر بھی خصوصی توجہ دی اس ضمن میں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کو ان کے دورہ پشاور کے دوران ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ فاٹا انضمام کے بعد اب تک کے عرصہ کے دوران حکومت نے قبائلی علاقوں میں تعمیر نو اور اجتماعی ترقی کے لاتعداد منصوبوںپر تقریباً50ارب روپے خرچ کر دیئے ہیں ۔وزیراعظم نے اس موقع پر متعلقہ حکومتی وزراءاور حکام کو خصوصی ہدایت کی کہ تعمیر نو کی رفتار کو مزید تیز کیا جائے۔