یونیورسٹیوں کے تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین آج کل بڑے جذباتی واقع ہو رہے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے ابھی چند مہینے قبل جامعہ پشاور کے سینکڑوں عارضی کلاس فور اور کلاس تھری ملازمین ایڈمن بلاک کے سبزہ زار میں صبح سے دھرنا دیتے ہوئے تھکے ہارے جذباتی نعروں یعنی گو وی سی گو اور غریب دشمن حکومت مردہ باد کی ریہرسل کیساتھ سڑکوں پر نکل کرکبھی روڈ نمبر2 انجینئرنگ چوک اور کبھی لاءکالج وائس چانسلر چوک میں روڈ بلاک کرکے مردم آزاری کے مرتکب ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں مستقل ملازمین کی باری بھی آگئی اور خیر سے صوبائی حکومت نے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے توسط سے جامعات میں مراسلہ بھجوا کر حکم صادر فرمایا دیا کہ یونیورسٹی ملازمین اپنے لئے الگ پے سکیل بنوالیں جبکہ اس کے بعد میڈیکل الاﺅنس،ہاﺅس سبسڈی اور ریکوزیشن وغیرہ صوبے کے ریٹ کے مطابق دی جائے گی۔ ساتھ ہی حکمنامے کا ایک نکتہ یہ تھا کہ جتنے ملازمین یونیورسٹی کیمپ میں رہائش پذیر ہوں کیمپس میں سیکورٹی اور بنیادی سہولیات پر ہونے والے اخراجات ان سے وصول ہوں گے۔ حکومت کو شاید اس کا علم نہیں کہ یہ وصولی یا کٹوتی تو پہلے سے ہو رہی ہے۔ چوتھاحکم یہ تھا کہ یونیورسٹی کے سکولز کالجز اور شعبہ جات میں ملازمین کے زیر تعلیم بچوں سے نصف فیس وصول کی جائے گی۔ آگہی نہ رکھنے والوں کیلئے عرض ہے کہ یونیورسٹی ملازمت میں صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولت مفت ہوتی ہیں۔ حکومت کا یہ حکمنامہ پہنچتے ہی یونیورسٹی ملازمین میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ایک تو یہ لوگ پہلے سے تعلیمی بجٹ میں بے تحاشا کٹوتی کے سبب اس پریشانی میںمبتلا ہیں کہ یکم کو تنخواہ ملے گی یا نہیں؟ ساتھ ہی مراعات میں کٹوتی کا صدمہ آیا تو پھر کیاتھا۔ بس دیکھتے ہی دیکھتے پشاور یونیورسٹی کے تمام تر کلاس تھری اور کلاس فورملاز مین آفس کے سبزہ زار میں اکٹھے ہوگئے اور لیڈروں نے خوب دل کی بڑاس نکال لی لیکن ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ ہمارا احتجاج یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف نہیںبلکہ حکومت کے خلاف ہے۔ اب حکومتی مراسلے یا حکمنامے کو یونیورسٹی انتظامیہ کیلئے نظر انداز کرنا چونکہ آسان نہیں تھا لہٰذا وقت ضائع کئے بغیر سنڈیکٹ کے میز پر منظوری کیلئے رکھ دیاگیا۔ اب یونیورسٹی ملازمین کہتے ہیں کہ پہلے تو وہ اس مراسلے کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ اسے مروجہ قانونی طریقہ کار کے برعکس غلط طورپر سنڈیکٹ سے منظور کرلیاگیا ہے۔ یونیورسٹی کے قواعد وضوابط سے آگہی رکھنے والے اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کے سیانے قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ قواعد وضوابط کے تحت یہ مراسلہ پہلے یونیورسٹی کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی میں جانا چاہیے تھا اب یہ جھگڑا سرپر پڑا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے؟ البتہ یونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص مجاز اتھارٹی کا مو¿قف ہے کہ یونیورسٹی بچانے اور اسے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے قربانی دینے کی ضرورت ہے اور اس قربانی کا پہلا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مراعات میں کٹوتی کے سبب اخراجات میں قدرے کمی واقع ہوئی اور یوں یونیورسٹی فوری طورپر اس ناگفتہ حالت سے نکل آئی ہے کہ جب مہینہ ختم ہو اور تنخواہوں کیلئے پیسے نہ ہوں۔ دوسری جانب ملازمین سیخ پا ہیں۔ کہتے ہیں کہ حکومت جب کچھ دیتی نہیں تو کٹ کیونکر لگاتی ہے؟ حکومت نے تعلیمی بجٹ کو بڑھانے کی بجائے کم کردیا۔ پھر گزشتہ بجٹ میں دس فیصد روایتی اضافہ جوکہ ہر سال تنخواہوں اور پنشن میں کیا جاتا ہے نہیں کیاگیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ کورونا وباءمیں کئی مہینے لاک ڈاﺅن کے باعث یونیورسٹیاں حدر درجہ خوار ہوگئیں مگر حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف پیکج نہیں آیا۔ دراصل یونیورسٹی ملازمین صرف اپنا رونا رو رہے ہیں۔ اور غور کرلیں تو اس ملک میں صحت، تعلیم، زراعت، توانائی اور سوشل ویلفیئر یا سماجی بہبود ایجنسی پانچوں شعبے خوار ہیں لہٰذا جب تعلیم خوار ہو تو لازماً تعلیمی ادارے بھی خوار ہونگے اور جب ایسا ہوگا تو جامعات کے ملازمین آسودہ حال کیسے ہوسکتے ہیں؟ اس گرما گرمی میں جامعہ پشاور کا ایک حکمنامہ بھی نظر سے گزرا۔ انتظامیہ کے اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ یونیورسٹی کے تدریسی اور نان تدریس ملازمین مقررہ دفتری اوقات کار کے دوران کسی قسم کی یونین بازی نہیں کرینگے۔ یعنی ان کی نشتند۔ گفتند اور برخاستند والی تمام تر سرگرمیوں جنرل باڈی۔ اجلاس اور میٹنگ پر دفتری اوقات میں پابندی عائد ہوگی۔ اس نوٹیفیکیشن کے ضمن میں انتظامیہ اور ملازمین دونوں کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہاجاسکتاہے البتہ اس کےساتھ ساتھ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ ڈیوٹی کو باقاعدہ کرنے کیساتھ ساتھ یونیورسٹی کی مجاز اتھارٹی ایک بجے کے بعد کام نہ کرنیوالے صبح مقررہ وقت پر نہ آنے والے ملازمین جبکہ یونیورسٹی میں گاڑیوں، بجلی، گیس، تیل اور ٹیلی فون کے استعمال کو قواعد وضوابط کے تحت لانے اور شاہ خرچیوں کے سدباب کیلئے کیا کرتی ہے؟