سینٹ کے الیکشن میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو واضح برتری حاصل ہوگئی ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن اپنے دعوﺅں کے برعکس سرپرائزدینے میں ناکام دکھائی دی ‘145 اراکین پر مشتمل پختونخوا اسمبلی سے سینٹ کیلئے 23امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 12 نے سینٹ کے لئے منتخب ہونا تھا حسب توقع تحریک انصاف نے 12میں سے10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے نیا ریکارڈ بنایا تاہم اس کی اتحادی پارٹی بی اے پی(باپ) کے امیدوار تاج آفریدی بوجوہ ناکام ہوئے جن کو17ووٹ ملے ‘پی ٹی آئی کے نومنتخب اہم سینیٹرز میں شبلی فراز‘ ثانیہ نشتر‘ لیاقت ترکئی اور محسن عزیز بھی شامل ہیں دوسری طرف پی ڈی ایم جماعت اسلامی کی حمایت اور 45 ارکان رکھنے کے باوجود محض دو سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور جے یو آئی کے مولانا عطاءالرحمن‘ اے این پی کے ہدایت اللہ خان کامیاب ٹھہرے ‘پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی بڑی پارٹیاں پہلی بار خیبر پختونخوا سے کوئی ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں ‘پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کے45 ارکان میں سے34 ووٹ ملے اورغالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدر ہمایون خان نے موقف اپنایا کہ اپوزیشن کے چھ سے آٹھ ووٹ سلپ ہوچکے ہیں ‘ مسلم لیگ ن کے عباس آفریدی بھی خلاف توقع شکست کھاگئے حالانکہ تاج آفریدی کی طرح ان کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ اپنے ذاتی اثر و رسوخ پر کامیاب ہوجائیںگے ‘کہا جارہا ہے کہ اے این پی کے بعض ارکان نے بوجوہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی بجائے بلوچستان عوامی پارٹی اور پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالے کیونکہ بی اے پی نے ایک معاہدے کے تحت بلوچستان میں اے این پی کے امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا تاہم پارٹی کے رہنما اس الزام یا تاثر سے انکار کر رہے ہیں کہ ان کے بعض ووٹ پی ڈی ایم یا اپوزیشن کی بجائے کسی اور کو گئے ہیں‘2018ءکے تلخ تجربے کے بعد اب کی بار تحریک انصاف نے اپنے ممبران کو بکنے سے بچانے کی کامیاب حکمت عملی اپنائی جس کے نتیجے میں بعض شکایات اور الزامات کے باوجود حکمران جماعت اپنے تمام امیدواروں کو کامیاب کرانے کا مقصد پورا کرسکی اور اس سلسلے میں نتائج آنے کے بعد اسمبلی ہال کے اندر باقاعدہ جشن بھی منایا گیا ‘کامیابی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے اپوزیشن پر مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو کامیاب بنانے کے لئے پیسے کا استعمال کیاگیا ہے جس کے باعث وہ اس نتیجے کو قبول کرنے کی بجائے چیلنج کرینگے جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے 10امیدواروں کی کامیابی کو اپنے اور وزیراعظم عمران خان پر ارکان کا اعتماد قرار دے کر الزام لگایا کہ اپوزیشن نے ان کے ارکان کو خریدنے کی کوششیں کیں مگر ہمارے ارکان نے بکنے سے انکار کرکے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرایا ‘صوبائی حکومت کیلئے اپنے100 کے لگ بھگ ارکان اسمبلی کو2018 ءکے تلخ تجربے اور بدترین ہارس ٹریڈنگ سے بچانے کا ٹاسک ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ متعدد گروپ اور بعض رہنما ممبران اسمبلی ٹکٹوں کی تقسیم اور بعض دیگر معاملات پر اپنی حکومت اور قیادت سے ناراض تھے تاہم سخت مانیٹرنگ اور چیکنگ کے علاوہ بہترین لابنگ کے باعث ارکان اسمبلی کو ووٹ بیچنے سے بچایا گیا جس کے باعث وزیر اعلیٰ ہاﺅس کی پوزیشن مزید مضبوط اور محفوظ ہوگئی ‘سینٹ الیکشن کے تمام پراسس کے دوران مختلف پارٹیوں نے جو طریقہ کار اوررویہ اپنایا عوامی سطح پر اس کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اورشاید اسی کا نتیجہ تھا کہ عوام اس پریکٹس سے نہ صرف یہ کہ لاتعلق نظر آئے بلکہ سیاسی پارٹیوں کی بے اصولی اورقلابازیوں نے اس تاثر کو ایک بار پھر تقویت دی کہ ان کی نظر میں اقتدار کا حصول ہی پہلی ترجیح ہے۔