تعلیم‘حکومت‘ ملازمین۔۔۔۔

یونیورسٹی کے تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین آج کل بڑے جذباتی واقع ہو رہے ہیں بالکل اس طرح جیسے ابھی چند مہینے قبل جامعہ پشاور کے سینکڑوں عارضی کلاس فور اور کلاس تھری ملازمین ایڈمن بلاک کے سبزہ زار میں صبح سے دھرنا دیتے ہوئے تھکے ہارے جذباتی نعروں یعنی گو وی سی گو اور حکومت مردہ باد کی ریہرسل کیساتھ سڑکوں پر نکل کر کبھی روڈ نمبر2انجینئرنگ چوک اور کبھی لاءکالج وائس چانسلر چوک میں روڈ بلاک کرکے مردم آزادی کے مرتکب ہوا کرتے تھے ان میں اکثریت نے اپنے آپ کو بے سود احتجاج کیلئے وقف کر رکھا تھا جبکہ ایک قلیل تعداد یونیورسٹی کے بعض دفاتر میں اس امید کے ساتھ مفت میں کام کرتے رہے کہ شاید فیصلہ ان کے حق میں آجائے بغیر تنخواہ کی مزدوری کا یہ سلسلہ گزشتہ جولائی سے جاری رہا تاہم جب فیصلے نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تو مفت میں کام کرنے والے بیچاروں کو بھی الوداع کہہ دیا گیا ایسے میں مستقل ملازمین کی باری بھی آگئی اور خیر سے صوبائی حکومت نے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے توسط سے جامعات میں مراسلہ بھجوا کر حکم صادر فرمایا دیا کہ یونیورسٹی ملازمین اپنے لئے الگ پے سکیل بنوالیں جبکہ اس کے بعد میڈیکل الاﺅنس ‘ہاﺅس سبسڈی اور ریکوزیشن وغیرہ صوبے کے ریٹ کے مطابق دی جائیگی ساتھ ہی حکمنامے کا ایک نکتہ یہ تھا کہ جتنے ملازمین یونیورسٹی کیمپس میں رہائش پذیر ہوں کیمپس میں سکیورٹی اور بنیادی سہولیات پر ہونے والے اخراجات ان سے وصول ہونگے حکومت کو شاید اس کا علم نہیں کہ یہ وصولی یا کٹوتی تو پہلے سے ہو رہی ہے چوتھا حکم یہ تھا کہ یونیورسٹی کے سکولز ‘کالجز اور شعبہ جات میں ملازمین کے زیر تعلیم بچوں سے نصف فیس سکول لی جائیگی آگہی نہ رکھنے والوں کیلئے عرض ہے کہ یونیورسٹی ملازمت میں صحت تعلیم اور رہائش کی سہولت مفت ہوتی ہیں حکومت کا یہ حکمنامہ پہنچتے ہی یونیورسٹی ملازمین میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ایک تو یہ لوگ پہلے سے تعلیمی بجٹ میں بے تحاشا کٹوتی کے سبب اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ یکم کو تنخواہ ملے گی یا نہیں؟ ساتھ ہی مراعات میں کٹوتی کا صدمہ آیا تو پھر کیاتھا بس دیکھتے ہی دیکھتے پشاور یونیورسٹی کے تمام تر کلاس تھری اور کلاس فور ملازمین مین آفس کے سبزہ زار میں اکٹھے ہوگئے اور مقررین نے مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی لیکن ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ ہمارا احتجاج یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف ہے اب حکومتی مراسلے یا حکمنامے کو یونیورسٹی انتظامیہ کیلئے نظر انداز کرنا چونکہ آسان نہیں تھا لہٰذا وقت ضائع کئے بغیر سنڈیکیٹ کے میز پر منظوری کیلئے رکھ دیا گیا اب یونیورسٹی ملازمین کہتے ہیں کہ پہلے تو وہ اس مراسلے کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ اسے مروجہ قانونی طریقہ کار کے برعکس غلط طور پرسنڈیکیٹ سے منظور کرلیاگیا ہے یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط سے آگہی رکھنے والے اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کے سیانے قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ قواعد و ضوابط کے تحت یہ مراسلہ پہلے یونیورسٹی کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی میں جانا چاہئے تھا اور وہاں سے منظور ہو کرتھروپراپرچینل آکر سنڈیکیٹ کے ایجنڈے میں شامل ہونا چاہئے تھا اب یہ جھگڑا سر پر پڑا ہے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے؟ البتہیونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص مجازاتھارٹی کا موقف ہے کہ یونیورسٹی بچانے اور اسے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے قربانی دینے کی ضرورت ہے اور اس قربانی کا پہلا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مراعات میں کٹوتی کے سبب اخراجات میں قدرے کمی واقع ہوئی اور یوں یونیورسٹی فوری طورپر اس ناگفتہ حالت سے نکل آئی ہے کہ جب مہینہ ختم ہو اور تنخواہوں کیلئے پیسے نہ ہوں دوسری جانب ملازمین سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ حکومت جب کچھ دیتی نہیں تو کٹ کیونکر لگاتی ہے؟ حکومت نے تعلیمی بجٹ کو بڑھانے کی بجائے کم کردیا پھر گزشتہ بجٹ میں دس فیصد روایتی اضافہ جو کہ ہرسال تنخواہوں اور پنشن میں کیا جاتا ہے نہیں کیا گیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ کورونا وباءمیں کئی مہینے لاک ڈاﺅن کے باعث یونیورسٹیاں حد درجہ خوار ہوگئیں مگر حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف یا پیکج نہیں آیا دراصل یونیورسٹی ملازمین صرف اپنا رونا رو رہے ہیں اگر غور کرلیں تو اس ملک میں صحت ‘تعلیم ‘زراعت‘ توانائی اور سوشل ویلفیئر یا سماجی بہبود یعنی پانچوں شعبے خوار ہیں لہٰذا جب تعلیم خوار ہوتو لازما تعلیمی ادارے بھی خوار ہونگے اور جب ایسا ہوگا تو جامعات کے ملازمین آسودہ حال کیسے ہیں؟ اس گرما گرمی میں جامعہ پشاور کا ایک حکمنامہ بھی نظر سے گزرا انتظامیہ کے اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ یونیورسٹی کے تدریسی اور نان تدریسی ملازمین مقررہ دفتری اوقات کار کے دوران کسی قسم کی یونین بازی نہیں کرینگے یعنی ان کی تمام تر سرگرمیوں جنرل باڈی اجلاس اور میٹنگ پر دفتری اوقات میں پابندی عائد ہوگی اس نوٹیفیکیشن کے ضمن میں انتظامیہ اور ملازمین دونوں کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے البتہ اسکے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی مجاز اتھارٹی ایک بجے کے بعد کام نہ کرنیوالے ‘صبح مقرر ہ وقت پر نہ آنے والے ملازمین جبکہ یونیورسٹی میں گاڑیوں ‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور ٹیلی فون کے استعمال کو قواعد وضوابط کے تحت لانے اور شاہ خرچیوں کے سدباب کیلئے کیا کرتی ہے؟