پاکستانی مختلف قومیتوں اور علاقوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ان قومیتوں کے درمیان جہاں بہت سے چیزیں اور قدریں مشترک ہیں وہاں فطری طورپر بعض معاشی‘ سیاسی اور سماجی مسائل بھی موجود ہیں مذہب نے ان قومیتوں کو آپس میں جوڑے رکھا ہے تو دوسری طرف بعض بنیادی معاشی مجبوریوں اور ضرورتوں نے بھی ان کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں اہم کردار اداکیا ہے بعض سیاسی حلقوں کے بیانیے سے قطع نظر حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کے اندر اگر ایک طرف پشتونوں کی خیبرپختونخوا میں صوبہ پنجاب یا پنجابیوں‘ سرائیکیوں کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ پائی جاتی ہے کہ ان کا ایک دوسرے پر انحصار ہے تو دوسری طرف سندھ میں ان کی ضرورتیں اور ترجیحات مختلف ہیں کراچی پشتونوں کا سب سے بڑا شہر ہے یہاں پشتون قومیتوں کیساتھ تعلقات کار کے معاملے پر مختلف قسم کے حالات اور شرائط کی بنیاد پر زندگی بسر کر رہے ہیں سیاسی وابستگی کے تناظر میں یہ سندھیوں اور بلوچوں کے قریب ہیں کیونکہ ماضی میں ان کے قوم پرست رہنما ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں مگر سماجی اور اقتصادی طورپر پشتونوں کی اکثریت اردو سپینگ شہریوں کے قریب ہیں اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان شہروں کی حد تک دوسری دو قومیتوں کے مقابلے میں ریکارڈ رشتہ داریاں قائم ہیں ‘ سندھ خصوصاً کراچی کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے ہر قومیت کو گلے لگا کر نہ صرف شناخت دی بلکہ ان کو اقتصادی بحالی اور ترقی کے مواقع بھی فراہم کئے اسی وجہ سے کراچی کو منی پاکستان کہہ کر پکارا جاتا ہے حیدر آباد‘ سکھر‘ ٹھٹھہ اور دوسرے شہروں میں بھی پشتونوں کو سندھی بھائیوں نے گلے لگایا اور اندرون سندھ میں لاکھوں پشتون اپنا کاروبار کرتے دکھائی دے رہے ہیں سیاسی نعروں سے قطع نظر ایک ٹھوس حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کے علاوہ اندرون سندھ پشتونوں خصوصاً قبائلی باشندوں کی اتنی بڑی تعداد آباد ہے جس کا عام طورپر ذکر اور اعتراف بھی نہیں کیا جاتا اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب کی طرح سندھ میں بھی پشتون کاروباری سطح پر ہر دوسری قومیت کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں تو غلط نہیں ہوگا اور اس بات کا اعتراف کرنا ہی چاہئے جہاں تک سندھ اور خیبرپختونخوا کے سماجی اور اقتصادی فرق یا تقابلی جائزے کاتعلق ہے سچی بات تو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اپنے ادارہ جاتی سٹرکچر اور ترقی کے تناظر میںبلوچستان اور سندھ سے زیادہ بہتر ہے سندھ کے دیہی علاقے پختونخوا کے دیہی علاقوں سے بہت پیچھے اور پسماندہ ہیں یہ علاقے اب بھی سڑکوں‘ بجلی‘ گیس یہاں تک کہ صاف پانی جیسی ضروریات سے محروم ہیں جبکہ امن وامان کی صورتحال کو بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا تعلیم اور تعلیمی اداروں کا معیار بھی پختونخوا کے مقابلے میں کمزور ہے جبکہ صحت کی مجموعی سہولتیں بھی مثالی نہیں ہیں جو بات سندھ کو پختونخوا سے ممتاز بنادیتی ہے وہ اسکی مثالی برداشت‘ ترقی‘ روزگار کے مواقع اور مکالمہ کا کلچر ہے سندھ سیاستدانوں‘ صحافیوں اور دانشوروں نے سندھی کلچر اور روایات کا جس موثر طریقے سے دفاع کیا ہے اور اپنی نئی پرانی نسلوں کو یہ چیزیں جس منظم طریقے سے منتقل کی ہیں وہ قابل ستائش اور دوسروں کیلئے قابل تقلید ہے کراچی اور حیدرآباد سمیت تمام شہروں اور علاقوں میں قدم قدم پر اسکے عوامی اور حکومتی مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان کی تربیت اورسرپرستی میں جی ایم سید اور ذوالفقار علی بھٹو نے بنیادی کردار ادا کیا تاہم بعد کی نسلوں نے جدید بنیادوں پر اسکی آبیاری کی اوراس عمل نے سندھیوں اور سندھی ثقافت کو مثالی اور مضبوط بنادیا شاید اسی مثبت طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ سندھی زبان دوسری زبانوں کے مقابلے میں سیاسی‘ صحافتی‘ ادبی اور علمی سطح پر بہت آگے موثر اور وسیع ہے ثقافتی آثار‘ مراکز اور سرگرمیوں نے سندھ کو معتبر اور منفرد بنادیا ہے جبکہ اس سرزمین پر موجود عظیم صوفیاءکے مزارات اور ان سے متعلق مسلسل تقریبات نے سندھیوں کے علاوہ دوسری قومیتوں‘ اقلیتوں اور نسلوں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رکھا ہے اسکے مقابلے میں پشتونخوا اورپشتونوںکے مجموعی حالات سندھ کے بالکل برعکس ہیں یہاں حکومتی اور سیاسی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے اور عملی اقدامات ناپید ہیں نئی نسل اس رویے کے باعث اپنی ثقافت‘ اقدار‘ زبان‘ تاریخ اور ادب سے لاتعلق ہو کر رہ گئی ہے اور ان کی کارکردگی محض بیانات‘ شاعری کی بھرمار اور الزامات تک محدود ہے سیاسی‘ صحافتی ‘ثقافتی اور سماجی میدانوں میں سندھ عملی طورپر خیبرپختونخوا کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان سے بہت منفرد آگے اور بہتر ہے اور غالباً اسی کانتیجہ ہے کہ تمام قومیتوں کو اس صوبے نے اپنے وسیع دامن میں سمائے رکھا ہے۔