مراعات کٹوتی کا قضیہ۔۔۔

ایسا لگتاہے کہ موجودہ حکومت جامعات کو راس نہیں آئی ہے اور پھر یونیورسٹی ملازمین کا کیا کہیے۔ ایک یونیورسٹی میں احتجاج ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسری میں سراٹھاتا ہے جبکہ اب تو ایک عرصہ سے یونیورسٹی ایمپلائز فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے مشترکہ احتجاج کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ جس کی پشت پر ٹیچنگ سٹاف یعنی اساتذہ بھی تالیاں بجاتے ہوئے کھڑے ہیں اور ساتھ ہی تاحال میڈیا کی حد تک الگ احتجاج بھی کر رہے ہیں اس ناگفتہ حالت کی ابتداءاس وقت ہوئی جب یونیورسٹیوں کو دو کشتیوں میں سوار کر دیاگیا۔ انتظامی طورپر صوبوں کے حوالے جبکہ مالی طورپر اسلام آباد کے رحم و کرم پر رہ گئیںسب سے بڑھ کر یہ کہ جب کورونا وباءحملہ آور ہوئی اور تعلیم بیچاری کو کورونا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا، ابتداءمیں تو ایک حد تک دہاڑی مار طبقے کو بھی پہلی اور آخری بار بارہ بارہ ہزار کورونا ریلیف پیکیج مل گیا مگر کیا کہیے کہ تعلیم کو کسی امداد اور داد رسی کے قابل اور حقدار نہیں سمجھا گیا۔ ساتھ ہی جامعات کی اپنی آمدنی کے چشمے بھی خشک ہوگئے اور یوں رفتہ رفتہ ایک گھمبیر مالی بحران نے جنم لے لیا۔ یونیورسٹیوں کے ہاں اگر تنخواہ کے پیسے ہوں تو پنشن اور مراعات کیلئے کچھ نہیں بچتا اور اگریہ آگے کر دئیے ہیں تو پھر تنخواہ کے بغیر کون پاگل کام کرے گا؟ اس ناگفتہ بہ حالت میں صوبائی حکومت کا ایک بلاخیز مراسلہ وائس چانسلروں تک آپہنچا جس کے نتیجے میں حکومت نے یہ جواز لیکر یونیورسٹی ملازمین کی مراعات یعنی میڈیکل اور رہائش یعنی ہاﺅس سبسڈی میں کٹوتی کا عمل شروع کیاگیا کہ چونکہ آئینی طورپر اس وقت جامعات صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں لہٰذا اس کے ملازمین کو الاﺅنسز صوبائی ریٹ کے مطابق دئیے جائیں گے چونکہ بات کٹوتی کی تھی لہٰذا کمر توڑ مہنگائی اور کورونا کے ستائے ہوئے یونیورسٹی ملازمین نےصدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے نئی پاکستانی سیاست کی دریافت یعنی دھرنا احتجاج کا آغاز کر دیا۔ جنرل باڈیز اور خباری بیانات تک اساتذہ بھی شامل رہے البتہ کنٹریکٹ اساتذہ کے مسئلے پر اسلامیہ کالج کے اساتذہ اس وقت کیمپ لگا کر دھرنادیتے رہے جب کورونا کو بہانہ بناکر تیسری مرتبہ تعلیمی لاک ڈاﺅن مسلط کیاگیا۔ یونیورسٹی ملازمین میں اس بابت کوئی دورائے نہیں کہ وہ حکومت کو یونیورسٹی ملازمین کے حقوق غضب نہیں ہونے دیںگے۔ اس سلسلے میں ایمپلائز فیڈریشن کے زیر اہتمام تین روزہ دھرنا احتجاج کا پہلا نصف دن یونیورسٹی کیمپس سے متصل جمرود روڈ کے گرین بیلٹ میں جبکہ دو روز کیمپس کے روڈ نمبر2 انجینئرنگ چوک کے مشرقی فٹ پاتھ پر بیٹھے رہے۔ ساتھ ہی اساتذہ نے اپنے صوبائی فپواسا چیپٹرکے تحت انجینئرنگ یونیورسٹی میں مشترکہ اجلاس کرکے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کیا۔ آئین اور قانون کے تقاضے اپنی جگہ اہم سہی لیکن میرے نزدیک جامعات کی موجودہ ابتر مالی پوزیشن اور تمام تر حدود پار کرنے والی اس مہنگائی میں یونیورسٹی ملازمین کی مراعات میں اضافے کی بجائے کٹوتی ایک ایسا معاشی صدمہ ہے جس کے نتیجے میں احتجاج ہی لازمی امر بن جاتاہے۔ جہاں تک جامعات کی خودمختاری اور اس پر حکومتی حملے کا تعلق ہے تو میری دانست میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد خودمختاری کا راگ الاپنا زیب نہیں دیتا۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ یونیورسٹیاں غیر ضروری طورپر اپنی مرضی سے ہفتے میں دو چھٹیاں کرسکتی ہیں اور اس طرح عیدین پر حکومتی اعلان کے برعکس آٹھ دس تعطیلات پر ہاتھ صاف کرنے میں خودمختار ہیں جامعات کے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کے مشترکہ احتجاج کانتیجہ کیا ہوگا؟ ابھی سے کچھ رائے قائم نہیں کی جاسکتی البتہ دھرنا احتجاج اور ریلیوں کے پریکٹس میں گووی سی گو اور تعلیم دشمن حکومت مردہ باد کے شور میں خیبر پختونخوا کی دوسری جامعات سے کوئی آواز اٹھتی نہیں؟ یا ہمیں سنائی نہیں دیتی؟ میری مخلصانہ اور غیر جانبدارانہ رائے یہ ہے کہ اگر حکومت تعلیم کو اپنی ترجیحات میںشامل کرلے اور یونیورسٹی ملازمین فرائض کی ادائیگی اور حقوق کے حصول میں توازن قائم کرلیں تو نہ صرف موجودہ ابتر حالت میں بہتری واقع ہوگی بلکہ آئندہ بھی اس نوعیت کے مسائل بہت کم پیدا ہوں گے۔ ایک نہایت لازمی امر یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی ملازمین یونیورسٹی کو بالکل اسی طرح اپنی ملکیت سمجھےں کہ جس طرح ایک دکاندار محض اس لئے اپنی دکان کی صفائی ستھرائی اور تحفظ کا خیال رکھتا ہے کہ وہاں پر وہ اپنے اور اپنے اہل واعیال کےلئے دو وقت کی روٹی کماتا ہے۔