ماہرین کئی برس قبل پیشگوئی کرچکے ہیں کہ آئندہ یا مستقبل کی جنگیں سرحدی اور جغرافیائی تنازعات کی بجائے پانی اور دوسرے ذرائع کی بنیاد پر لڑی جائینگی جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک کے درمیان دریاﺅں‘ ڈیموں اور پانی کے تنازعات پوری شدت کے ساتھ پہلے ہی سے موجود ہیں چین اوربھارت جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس نوعیت کے تنازعات اور اختلافات وقتاًفوقتاً شدت کیساتھ سر اٹھاتے آئے ہیں پاکستان اورافغانستان کے درمیان بھی گزشتہ کئی برسوں سے دریائے کابل کے تنازعے پر مسئلہ چلتا آرہا ہے جبکہ ایران اور افغانستان کے مابین بھی پانی کاپرانا تنازعہ موجود ہے اور فریقین کے درمیان نہ صرف سخت تلخی پائی جاتی ہے بلکہ کئی بار جھڑپیں بھی ہوئی ہیں اس تناظر میں جنوبی ایشیاءکی صورتحال اور کشیدگی کو کسی طور نظرانداز نہیں کیاجاسکتا دوسری طرف پاکستان کے اندر صوبوں کے درمیان بھی1960 سے پانی کے تنازعات موجود ہیں اورسندھ پنجاب‘ خیبرپختونخوا کے مابین پانی کی تقسیم کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں اسی نوعیت کے اختلافات ڈیموں اور بجلی کی پیداوار اورتقسیم کے معاملے پر بھی موجود ہیں پانی نہ صرف زراعت اور بجلی میں اضافے اور ترقی کیلئے لازمی ہے پاکستان کے متعدد اہم شہروں کو پانی کی فراہمی بڑے دریاﺅں سے کی جارہی ہے جسکی بڑی مثال حیدرآباد سے کراچی کیلئے بنایا گیا وہ نہر ہے جو کہ دریائے سندھ کے ذریعے کراچی کی تقریباً70 فیصد ضرورتیں پوری کر رہی ہے اسلام آباد جیسے شہر کو بھی ابتداءہی سے دریائے سندھ کا پانی فلٹریشن سسٹم کے ذریعے فراہم کیا جارہاہے گزشتہ چند برسوں سے خیبرپختونخوا اور دوسرے صوبوں کے زیر زمین پانی کا مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے اور پشاور سمیت اکثر شہروں کا واٹرٹیبل تشویشناک حد تک نیچے گرچکا ہے جسکے باعث ڈریلنگ اور کنویں کے ذریعے پانی کی تلاش کی گنجائش تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے پشاور اور کابل کا واٹر ٹیبل خطرناک نوعیت کے چیلنج سے دوچار ہے جسکے باعث خطرہ ہے کہ اگر پانی کے استعمال کو کنٹرول نہیں کیا گیا اور متبادل ذرائع نہیں ڈھونڈے گئے تو پینے کا پانی بھی ناپید ہو جائے گا اسکے ضروری اقدامات ناگزیر ہوگئے ہیں خیبرپختونخوا کو قدرت نے پانی‘ قدرتی معدنیات اور جنگلوں کے بے پناہ وسائل اور ذخائر سے نوازا ہے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے خیبرپختونخوا میں موجود دریاﺅں کا پانی جہاں ایک طرف ملک کی60 فیصد ضرورتیں پوری کر رہا ہے بلکہ5000 میگاواٹ سے زیادہ کی بجلی بھی اسکے چارڈیم پیدا کر رہے ہیں جس سے انتہائی سستی یعنی ارزاں بجلی پیدا ہوتی ہے اسکے علاوہ ورلڈ بینک کی سال2011-12 کی ایک رپورٹ کے مطابق دریائے سوات اور بعض دیگر دریاﺅں سے انتہائی کم لاگت پر تقریباً 30000 میگاواٹ کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے خیبرپختونخوا میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کا سلسلہ حکومتی اقدامات کے باعث کافی حد تک قابو میں آچکا ہے جبکہ نئے جنگلات پر بھی توجہ دی جارہی ہے جسکے نتیجے میں جہاںیہ صوبہ تقریباً20 فیصدی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ بنے گا وہاں پانی کے ذخائر میں اضافے کاراستہ بھی اس سے ہموار ہو جائیگا جبکہ اس سے ماحولیات اور سیاحت میں بھی مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی اور زراعت کے شعبے کو بھی فروغ ملے گا صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور پانی کو پیداواری ذرائع کیلئے استعمال کرنے کے معاملے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اسلئے لازمی ہے کہ پانی کے غیر ضروری استعمال کی مانیٹرنگ کی جائے اور واٹر ٹیبل کو اپر لانے کیلئے بھی درکار اقدامات کئے جائیں تاکہ اس چیلنج سے بروقت نمٹا جاسکے اور بڑے شہروں کو پانی کے بحران سے بچایا جا سکے۔