دماغی سرطان کو روکنے والی ویکسین پہلے طبی مرحلے میں کامیاب

لائپزگ، جرمنی: امنیاتی نظام کو بیدار کرکے دماغی سرطان کو روکنے والی ویکسین نے پہلا طبی مرحلہ (فیز ون کلینکل ٹرائل) کامیابی سے پاس کرلیا ہے۔

امیونوتھراپی کی بنیاد پر تیارکردہ یہ ویکسین دماغ کے خلیات کو امنیاتی طور پر اس قابل کرتی ہےکہ وہ عام خلیات کو جیسے ہی تبدیل کرکے سرطانی روپ دھارتا ہوا دیکھتے ہیں اس پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔

معروف طبی جریدے نیچر میں اس تحقیق کے تازہ نتائج ظاہر ہوئے ہیں اور پہلے مرحلے میں کامیابی سے اس کی افادیت اور محفوظ ہونا ثابت ہوگیا ہے۔

اب دوسرا طبی (کلینکل فیزٹو) مرحلہ شروع کیا جائےگا۔ لیکن واضح رہے کہ دماغ کے گلائیل خلیات میں جنم لینے والے سرطان گلائیوما کئی اقسام کے ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض 70 فیصد تک تندرست خلیات جیسے ہی ہوتے ہیں یہ پورے دماغ میں پھیل جاتے ہیں اور انہیں جراحی سے نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

کم شدت کے گلائیوما (متاثرہ سرطانی خلیات) کی 70 فیصد تعداد میں صرف ایک جین کی تبدیلی یا خرابی سے یہ کینسر شروع ہوتا ہے۔ اس جین کو ’آئسوکائٹریٹ ڈی ہائیڈروجینیس ون‘ یعنی آئی ڈی ایچ ون کہا جاتا ہے۔

جرمن ماہر مائیکل پلیٹن اور ان کے ساتھیوں نے یہ ویکسین کئی برس کی محنت سے تیار کی ہے۔ یہ ویکسین آئی ڈی ایچ ون کو نشانہ بناتی ہے۔ اور گلائیوما کی صورت میں نیو ایپٹوپس نامی پروٹین کی پیداوار کو روکتی ہے۔ 2015 کے لگ بھگ اسے جانوروں پر آزمایا گیا تھا۔

اس عمل میں 33 مریضوں کو شامل کیا گیا جو آئی ڈی ایچ ون گلائیوما سے متاثر تھے اور اس ویکسین کا نام آئی ڈی ایچ ون ہی رکھا گیا ہے۔

ویکسین کے بعد 93 فیصد مریضوں پر امنیاتی ردِ عمل پیدا ہوا اور آئی ڈی ایچ ون تبدیلی کو نشانہ بنانے لگا۔

دوسری جانب امنیاتی ٹی سیل بھی سرگرم ہوئے اور تین سالہ تحقیق کے دوران 84 فیصد افراد زندہ رہے حالانکہ دماغی سرطان 12 سے 20 ماہ میں مریض کو ہلاک کرڈالتا ہے۔

اس کے علاوہ انہی مریضوں کا امنیاتی نظام تین سال بعد بھی ویسا ہی طاقتور رہا۔