کورونا کا طرز عمل یا طریقہ واردات بھی عجیب و غریب ہے جب دیکھیں تو تعلیم بیچاری پر حملہ آور ہوکراسے دبوچ لیتی ہے چوتھی مرتبہ تعلیمی لاک ڈاﺅن سے قبل جب طلباءسے فیسوں کی وصولی کا کام تمام ہوا تو ایک بار پھر لاک ڈاﺅن آپہنچا تیسری بندش کو تو بہاریہ تعطیلات کا نام دیاگیاجس کا خاتمہ29مارچ کو ہونا تھامگر چوتھی مرتبہ لاک ڈاﺅن مسلط ہونے کیساتھ یہ بات شاید حکومت بھول گئی کہ11اپریل تک توسیع والی چھٹیوں کو کیا نام دیا جائے مطلب یہ کہ سرکاری اعلان میں یہ نہیں کہا گیا کہ29مارچ سے11اپریل تک تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کی بندش کے دوران نام نہاد آن لائن کلاسز ہوں گی؟ یا اس دوران بھی طلباءکرکٹ کیلئے وقف ہونگے؟ چوتھی مرتبہ اس متوقع تعلیمی بندش کے واقعہ پر اگرچہ اساتذہ خاموش ہیں لیکن طلباءکی طرف سے قدرے ردعمل ضرور سامنے آیا ہے طلباءتنظیموں نے ریلیوں کا اہتمام کیا اور اپنی بات میڈیا کے ذریعے بھی حکومت تک پہنچانے کی کوشش بھی کی مگر طلباءکا تعلیمی وقت ضائع ہونے کا جو سلسلہ 16 مارچ2020 سے جاری ہے اس میں کوئی فرق نہیں آیا اس دوران اسلامی جمعیت طلبہ پشاور نے یونیورسٹی کے روڈ نمبر2پر وائس چانسلر چوک میں احتجاجی کیمپ لگا کر علامتی کورونا فری کلاسز کا اہتمام کیا جبکہ کتبوں اور بینرز کے توسط سے اپنے لکھے گئے نعروں نہ صرف حکومت کو دشمن قرار دیا بلکہ وفاقی وزیر تعلیم سے یہ گزارش بھی کردی کہ” شفقت انکل ہمیں پڑھنے دیں“ ساتھ ہی خیبرپختونخوا حکومت سے صوبے کی پرانی جامعات کی مالی مشکلات میں مدد دینے اور سب سے قدیم درسگاہ پشاور یونیورسٹی کیلئے پانچ ارب روپے بیل آﺅٹ پیکیج کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا تعلیمی بندش کے خلاف طلباءکے احتجاجی ردعمل اور موقف میں یہ بات ہر ذی شعور کے لئے بڑی معنی رکھتی ہے کہ آیا کورونا وباءسے محض تعلیمی اداروں کو خطرہ لاحق ہے اسکے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیوں‘ جلسوں‘ ریلیوں دھکم پیل اور بی آر ٹی پشاور کو کچھ بھی نہیں کہتی؟ طلباءکی یہ بات بھی بجا ہے کہ سماجی فاصلے کے تحت ہونیوالی کلاسز کی بندش کا کیا جواز ہے؟ حکومت اگر نرسری اور پرائمری تعلیمی ادارے بند کرلیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یونیورسٹی کے عاقل و بالغ طلباءکو مسلسل حصول تعلیم سے دور رکھنے کی بات قدرے غور طلب ہے حکومت کہتی ہے کہ ہمیں طلباءکی زندگی عزیز ہے مگر سوال یہ ہے کہ جو چیز عزیز ہو اس کیلئے تو قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور اس پر مہربانیاں بھی کی جاتی ہیں مگر یہاں پر معاملہ الٹا چل رہا ہے یعنی گزشتہ تیرہ مہینے کے دوران چارمرتبہ تعلیمی لاک ڈاﺅن عمل میں لایا گیا مگر اس کے باوجود تعلیمی ادارے اور طلباءحکومت کی طرف سے پیسے کی قربانی اور اس شکل میں تعلیم پر کسی قسم دوسری مہربانی سے محروم رہے مطلب یہ کہ کورونا سے بچاﺅ کی احتیاطی تدابیر مکمل پاسداری سے تدریسی عمل کو جاری رکھا جا سکتا ہے مگر اس کیلئے تعلیم کو ایک خصوصی مالی پیکیج فراہم کرنے کی ضرورت ہے لیکن شومئی قسمت کہ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کو اس ضرورت کا احساس نہیں ہوا اور یوں تعلیم مسلسل خوار ہو کر پستی کی طرف جا رہی ہے اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنی احتجاجی علامتی کورونا فری کلاس سے تعلیمی بندش کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے صوبہ بھر میں احتجاجی کیمپوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے حکومت کو جگانے اور تعلیمی بربادی کی جانب متوجہ کرنے کا اعلان کیا ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر کیا ہوتا ہے؟ مگر میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ حکومت کے کان پر جوں رینگنے والی نہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ احتجاج صدا بہ صحرا ثابت ہو باقی رہی یہ بات کہ آخر وہ کونسا نسخہ اور کیا حکمت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی اور اقتداری سرگرمیوں کی جانب کورونا کا دھیان کیوں نہیں جاتا ؟ تو بات نہایت ہی آسان اور قابل فہم ہے کہ وہ تو نمبر اور پیسہ بنانے اور اقتدار بچانے اور گرانے جیسے ضروری کام ہیں طلباءاگر بتا سکتے ہیں تو دیر کس بات کی کہ اس سے زیادہ اہم اور ضروری چیز اور کیا ہو سکتی ہے جو آگے بڑھ کر اس کے مقابلے میں کھڑی ہو کر حکومت اور اپوزیشن کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیں؟ جہاں تک اسلامی جمعیت طلبہ کے علامتی کورونا فری کلاس کے اہتمام کا تعلق ہے تو بہت سے لوگوں کیلئے یہ امر باعث حیرت ہوگا کہ یہ طریقہ بچاﺅ حکومت کے ذہن میں آخر کیوں نہیں آتا؟ طلباءنے اپنی علامتی کلاس کیلئے سڑک کے بیچ متعین کردہ فاصلے کے مطابق کرسیاں ڈال کر ماسک اورسینی ٹائزر کیساتھ بیٹھ کر کلاس لے لی یہی طریقہ پورے تعلیمی نظام میں اختیار کیا جا سکتا ہے مگر ایسا کرنے سے تو پھر تعلیم کا جنازہ نکلنے سے رہ جائے گا اور حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ حکومت ایسانہیں چاہتی۔