کورونا اور عوام کا غیر سنجیدہ رویہ۔۔۔

کورونا کی تیسری لہر نے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جبکہ حکومت نے کیسز اور اموات میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے دیگر اقدامات اور پابندیوں کے علاوہ پشاور سمیت بعض دیگر شہروں میں دفعہ 144 کے نفاذ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں نے او پی ڈی کی سہولتیں ختم کر دی ہیں جبکہ مردان ، ایبٹ آباد اور سیدو شریف سوات میں بھی نہ صرف یہ کہ کیسز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے بلکہ ان شہروں کے ہسپتالوں کو بھی پشاور جیسی صورتحال او ر دباﺅ کا سامنا ہے۔ حکومت سمارٹ لاک ڈاﺅن کے بعد اب بعض شہروں اور علاقوں میں مکمل لاک ڈاﺅن کا بھی جائزہ لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔ جبکہ اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ انتہائی سختی کے ساتھ نمٹا جائیگا۔ منگل کو جاری کردہ تفصیلات کے مطابق 24گھنٹے کے دوران خیبر پختونخوامیں کورونا سے 26افراد جاں بحق ہوگئے تھے یوں صوبے میں جان بحق ہونے والے افراد کی تعداد گزشتہ منگل کے روز2345ہوگئی تھی۔ 24گھنٹے کے دوران صوبے میں 1015نئے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد مجموعی تعداد87ہزار60 ہوگئی تھی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان سرکاری تفصیلات کے مطابق صرف پشاو ر میں24گھنٹے کے عرصے میں377نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے نتیجے میں صوبائی درالحکومت میں کورونا کیسز کی مجموعی تعداد 35 ہزار995جبکہ شہرمیں اس وباءسے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد1246تک پہنچ گئی تھی اس سے دو روز قبل ملک کے ان 16اضاع کی ایک فہرست حکومت کے ساتھ ڈبلیو ایچ او نے بھی جاری کردی۔ جہاں کیسز اور اموات کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا تھا۔ بد قسمتی سے ملک گیر سطح پر جاری کردہ اس لسٹ میں پشاور پہلے، سوات دوسرے اور ایبٹ آباد آٹھویں نمبر پر موجود تھا۔ مذکورہ فہرست کے مطابق پشاور میں24.4جبکہ سوات میں 20.8کے تناسب سے کیسزکی شرح میں اضافہ دکھایا گیا تھا جس کو گزشتہ ایک برس کے دوران خطے کاسب سے بڑا تناسب بتایا گیا ہے۔ ایک اور سرکاری رپورٹ کے مطابق 28مارچ کے دن ملک میں جن26شہروں کو کسیز اورا موات کی شرح اور تعداد کے لحاظ سے خطرناک ترین قرار دیا گیا ہے ان میں 9شہروں کاتعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔ جن میںپشاور ، مردان، سوات، نوشہرہ، دیر لوئر، ملاکنڈ، صوابی، چارسدہ، ہری پور، کوہاٹ اور ایبٹ آباد شامل ہیں۔ صوبائی محکمہ صحت کی جاری کردہ انہی دنوں کی ایک رپورٹ کے مطابق28مارچ کو یہ بات نوٹس میں آئی کہ صوبے میں 6500بچوں میں بھی کورونا وائرس پایا گیا۔ ان بچوں کی عمریں 16سال سے کم بتائی گئیں۔ اس رپورٹ نے والدین کو پریشان کر دیا جبکہ اس تمام تر صورتحال پر قابوپانے کیلئے پشاور میں صوبائی ٹاسک فورس کا خصوصی اجلاس وزیر اعلیٰ محمود خان کی صدارت میں بلایا گیا جس میں متعدد اہم اقدامات اور پابندیوں کا اعلان کیا گیا۔ دوسری طرف سٹی ٹریفک پولیس نے تیس مارچ کے روز ایس او پیز کی خلاف ورزی پر تقریباً نو ہزار افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی۔ متعدد کوگرفتار کیا گیا جبکہ آئی جی ثناءاللہ عباسی ، سی سی پی او عباس احسن کی ہدایت پر عباس مجید مروت اور ان کی ٹیم نے شہر میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی مہم بھی چلائی۔ اگر چہ حکومتی اقدامات کو اب بھی تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا اور بعض حلقوں کے مطابق حکومت بوجوہ نرمی کامظاہرہ کرتی آرہی ہے، اس کے باوجود دوسرے صوبوں ، شہرں اور علاقوں کے مقابلے میں پختونخوا حکومت کے حفاظتی اقدامات کافی بہتر اور جامع ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عوام اور بعض حلقے اتنی اموات اور کیسز کے باوجود اب بھی اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور اس کو بہت سے لوگ اب بھی ایک مذاق اور سازش قرار دے رہے ہیںجو کہ بہت تشویشناک با ت ہے اور اگر یہی رویہ رہا تو اس کے نتیجے میں جہاں اموات کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگااور ہمارا ہیلتھ سسٹم بڑے چیلنج سے دوچار ہوگا وہاں حکومت کو مزید سخت اقدامات اٹھانا پڑیں گے جس کے باعث ہمارے سماجی اور معاشی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جاری صورتحال کے تناظر میں اس مسئلے کو سنجیدہ لیا جائے۔