ٹورانٹو: پاکستان سمیت 21 ممالک میں دس سالہ تحقیق کے بعد ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر ہفتے بھر میں صرف 150 گرام ’’کمپنی والے‘‘ گوشت کے کھانے بھی کھائے جائیں تو دِل کی بیماریوں کا خطرہ بہت بڑھ سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اس تحقیق میں پانچ براعظموں کے 21 ممالک سے 134,297 افراد میں گوشت کے استعمال اور امراضِ قلب کی بابت اعداد و شمار جمع کیے گئے تھے۔
آغا خان یونیورسٹی کراچی میں ڈیپارٹمنٹ آف کمیونٹی ہیلتھ سائنسز اینڈ میڈیسن کی ڈاکٹر رومینا اقبال نے اس تحقیق کےلیے پاکستان سے اعداد و شمار فراہم کیے جبکہ وہ اسی تحقیق کے مرکزی مصنفین میں بھی شامل ہیں۔
اس تحقیق میں گوشت کی دو اقسام رکھی گئی تھیں: غیر تیار شدہ (unprocessed) اور تیار شدہ (processed)۔
گوشت کی دکانوں پر عام فروخت ہونے والے گوشت کو ’’غیر تیار شدہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اسے لمبے عرصے تک محفوظ اور کھانے کے قابل رکھنے کےلیے کسی کیمیائی عمل سے نہیں گزارا جاتا۔
دوسری جانب گوشت کی مصنوعات، مثلاً ساسیج وغیرہ، دو سے تین مہینوں تک محفوظ اور کھانے کے قابل رہتی ہیں کیونکہ انہیں مختلف صنعتی عمل کاریوں (پروسیسز) سے گزار کر ان میں نمک اور دوسرے کیمیکلز بھی ملائے جاتے ہیں جو انہیں کئی ہفتوں اور مہینوں تک خراب ہونے نہیں دیتے۔
’’پروسپیکٹیو اربن رُورل ایپی ڈیمیولوجی‘‘ (پیور) کہلانے والی اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہفتے میں صرف 150 گرام یا اس سے زیادہ ’’تیار شدہ‘‘ گوشت کھانے والوں کےلیے ناگہانی موت کا خطرہ، تیار شدہ گوشت استمال نہ کرنے والوں کے مقابلے 51 فیصد زیادہ، جبکہ دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ 46 فیصد زیادہ ہوگیا تھا۔
اس کے برعکس ’’غیر تیار شدہ‘‘ گوشت کھانے والوں میں گوشت کے استعمال سے دل کی بیماریوں یا اموات کا اضافی خطرہ ثابت نہیں ہوسکا۔
’’دی امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن‘‘ میں شائع ہونے والے اس مطالعے کے نگراں اور مک ماسٹر یونیورسٹی، کینیڈا میں پاپولیشن ہیلتھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر مشہد دہقانی کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ تحقیق گوشت کے استعمال اور دل کی صحت میں تعلق کو واضح کرتی ہے لیکن اب بھی اسے مکمل نہیں کہا جاسکتا۔
مثلاً یہ کہ اس تحقیق میں گوشت کھانے کے معمول سے متعلق معلومات ضرور جمع کی گئی ہیں لیکن گوشت کون کونسے طریقوں سے پکایا گیا ہے؟ اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں کیا گیا۔
اس کے باوجود، ڈاکٹر مشہد دہقانی کا مشورہ ہے کہ تیار شدہ سرخ گوشت کھانے کے معاملے میں احتیاط برتنا اور اس کی مقدار کم رکھنا ہی بہتر ہے۔