کورونا کے پہلے ہاتھوں طویل تعلیمی لاک ڈاﺅن میں جب قدرے کمی اور نرمی واقع ہوئی تو حکومت نے غالباً بغیر سوچے سمجھے طلباءکو بغیر امتحان پاس یا پروموٹ کرکے اگلی کلاس میں بٹھا دیا تو راقم کی رائے یہ تھی کہ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ پاکستان میں نالائقوں کی کمی پوری ہوجائے گی اور بعد ازاں جب یہ کہاگیا کہ وباءجلد جانے والی نہیں لہٰذا اس کے ساتھ رہنا ہے اور ہم نے کورونا کیساتھ زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی ہے۔ ساتھ ہی بچاﺅ کی تدابیر پر عملدرآمد کا ڈنڈورا مزید سخت کر دیاگیا مگر ارباب اختیار نے عملدرآمد کروانے کی بجائے سب کچھ بیروزگار اور مہنگائی زدہ عوام پر چھوڑ دیا یعنی کس ریلیف پیکیج کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔ حالانکہ اس ملک کے حکمران اس سے بخوبی واقف ہیںکہ دنیا کے تقریباً تمام کورونا زدہ ممالک نے تعلیم سمیت زندگی کے تمام شعبوں کو ریلیف پیکیج فراہم کردئیے ہیں جن میں امریکہ سرفہرست ہے۔ اس غفلت یا لاپرواہی کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ملک میں کورونا کے ہاتھوں اموات پندرہ ہزار سے بڑھ گئیں۔ متاثرین لاکھوں میں اور ہسپتالوں میں بیڈز کی مزید گنجائش باقی نہیں رہی جبکہ ساتھ ہی روزافزوں بڑھتی بیروزگاری اور ہر کسی کی اپنی مرضی کی مہنگائی کے ہاتھوں نادار لوگ حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جہاں تک کورونا سے بچاﺅ کی ویکسی نیشن کا تعلق ہے تو وہ کچھ تو چین کا بھلا ہو کہ وہاں سے بھجوائی گئی اور کچھ خریدی گئی اور وہ بھی تاخیر سے یعنی دنیا کے تقریباً دیگر ممالک کی قطار میں پاکستان آخری لائن میں سب سے آخرمیں ہی رہا۔ طلباءکا ایک سال تو خیر سے مکمل ضائع ہوگیا جبکہ دوسرے کی باری ہے۔ مطلب یہ کہ جب کسی ملک کا حکمران اپنے عوام سے یہ کہے کہ وباءکیساتھ رہ کر زندگی گزارنی ہے اور پھر بار بار یہ بات دھرائی جائے کہ ملک مکمل لاک ڈاﺅن کا متحمل نہیں ہوسکتا تو پھر تعلیم بیچاری نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کہ ایک جانب کورونا کے نشانے پر جبکہ دوسری طرف حکومت کی بے حسی کا شکار ہے یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ جب کلاسیں تقسیم ہوں۔ کلاس روم میں روزانہ جراثیم کش سپرے۔ سینی ٹائزر واک تھرو گیٹ، پانی صابن ماسک اور سماجی فاصلے کے اہتمام کا انتظام ہو تو آیا پھر بھی تدریسی عمل کو جاری نہیں رکھا جاسکتا؟ بلاشبہ رکھا جاسکتا ہے مگر مذکورہ لوازمات کے انتظام کے لئے پیسے کا خرچ چاہیے اور وہ بدقسمتی سے اس ملک میں باقی ماندہ ہر چیز ہر کام بالخصوص فروغ سیاست فروغ اقتدار اور فروغ پروٹوکول کیلئے تو دستیاب ہے ‘ رہی تعلیم تو بیچاری کو کون پوچھے۔ یہ ناگفتہ بہہ حالت حکمرانوں کو چھوڑ کر طلباءوالدین اور اساتذہ سمیت تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کیلئے بھی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ مطلب یہ کہ اب ہونا یہ چاہیے کہ تدریسی عمل جاری رکھنے کیلئے درکار پیسے کا بندوبست کچھ اس طریق پر بھی ہوسکتا ہے کہ تعلیمی ادارے طلبائ، اساتذہ ،والدین اور خود یکجا ہوکر تعلیم بچاﺅ چندہ مہم کا آغاز کردیں اور چوراہوں اور سڑکوں میں چار پائیاں ڈال کر چندہ اکٹھا کرنا شروع کریں کیونکہ حکومت نے تعلیمی بجٹ میں اپنی بے تحاشا کٹوتی کے ہاتھوں تعلیم کا جو حشر کیا ہے ایسے میں تو جامعات اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہیں تو کورونا سے بچاﺅ کی احتیاطی تدابیر پر خرچہ کیلئے پیسے کہاں سے لائیں اور تدریسی عمل کو کس طرح جاری رکھ سکیں؟ اگرچہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک مثالی آسودہ حال انسانی معاشرے کے قیام کیلئے جہاں پر غربت ناخواندگی، انتہاپسندی، دہشت گردی نہ ہوں تعلیم کا فروغ ناگزیر ہے مگر اس کے باوجود بھی ہمارے ہاں تعلیم کو ہمیشہ سے طاق نسیان میں رکھی جاتی ہے جس کے بھیانک نتائج ملک کے عوام اور ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ اس بات سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا۔بے شک حکومت کسی بھی طالب عل کو بغیر امتحان کے پاس نہ کرے لیکن تدریسی عمل کو جاری رکھنے کیلئے اپنی اخلاقی سیاسی جمہوری اور آئینی ذمہ داریاں ضرور پوری کرے تاکہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مزید پسماندگی کی تاریکی میں جانے سے بچاجاسکے۔