افغان حکومت کی کمزور ساکھ۔۔۔

قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں افغانستان کا اہم دورہ کرنے والے پاکستانی پارلیمنٹرینز پر مشتمل وفد کے جہاز کو گزشتہ روز کابل ائرپورٹ پر اترنے نہیں دیاگیا جسکے باعث یہ دورہ ملتوی کرنا پڑا تاہم اس معاملے نے جہاں افغان حکومت کے بارے میں متعدد سوالات اٹھا دیئے ہیں وہاں پاکستان کے متعلقہ ریاستی اور سفارتی حلقوں میں کافی ناراضگی اور تشویش کو بھی جنم دیا ہے یہ دورہ اس حوالے سے غیر معمولی نوعیت کا تھا کہ اس کیلئے اسلام آباد اور کابل میں کئی ہفتوں سے سفارتی تیاریاں جاری تھیں اور پہلی بار کابل میں سرکاری سطح پر پاکستان کے جھنڈے سڑکوں اور چوکوں پر لگائے گئے تھے وفد نے دوسروں کے علاوہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور بعض دوسرے اہم حکومتی اور سیاسی قائدین سے بھی ملاقاتیں کرنی تھیں وفد میں شامل بعض ممبران اسمبلی اور سرکاری حکام کے علاوہ بعض افغان عہدیداران کا جو موقف اور دلائل اب تک سامنے آچکے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے جہاز نے جب حامد کرزئی انٹرنیشنل ائرپورٹ کابل پر اترنے کی اطلاع دے دی تو مضحکہ خیز طور پر ائرپورٹ ٹاور سے اس کے عملے کو بتایا گیا کہ بعض سیکورٹی خدشات کے باعث ائرپورٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے اسلئے پاکستانی جہاز لینڈنگ نہیں کرسکتا اور وہ واپس چلا جائے ذرائع کے مطابق پاکستانی جہاز50 منٹ تک کابل اور گردونواح میں اسلئے پرواز اور انتظار کرتا رہا کہ افغان حکومت معاملے کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے یا تو لینڈنگ کی خصوصی اجازت دے دیں گے یا متبادل کا انتظام کرلیں گے مگر دوسری طرف اسکے باوجود خاموشی چھائی رہی کہ افغان پارلیمنٹ کے سپیکر سمیت متعدد دوسرے اعلیٰ حکام ائرپورٹ پر استقبال کیلئے موجود تھے کلیئرنس نہ ملنے کی وجہ سے اعلیٰ سطحی وفد کو ناکام واپس آنا پڑا تاہم سپیکر اسد قیصر کے ساتھ جب ان کے افغان ہم منصب اور دیگر نے اسلام آباد میں لینڈنگ کے بعد رابطے کئے تو انہوں نے کسی شکوے یا منفی ردعمل کی بجائے اسے سیکورٹی مسئلہ سمجھ کر ان کو یقین دہانی کرائی کہ جب بھی سیکورٹی کے حالات بہتر ہونگے وہ وفد لیکر پھر آجائینگے بظاہر تو پاکستان نے اپنی نوعیت کے اس غیر معمولی اور ناقابل یقین واقعے پر کسی قسم کا منفی یا سخت ردعمل نہیں دیا تاہم اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل نے نہ صرف پاکستان کے متعلقہ حلقوں کو بلکہ ان افغان قائدین اورعہدیداران کوبھی سخت مایوس کردیا ہے جو کہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق افغان پارلیمنٹ نے اس طرز عمل اور واقعے پر اولسی جرگہ میں بحث کرانے اور تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے بعض افغان حکام کے مطابق جہاز کو اسلئے اترنے نہیں دیا گیا کہ عین اسی دوران ائرپورٹ پر کام کرنے والی ترکی کی ایک کمپنی کو کھدائی کے وقت بارودی مواد ملا تھا جسکے باعث ائرپورٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا جبکہ بعض نے میڈیا کو بتایا کہ چونکہ ائرپورٹ کے ائرٹاور کا نظام اور ڈیلنگ امریکہ اور نیٹو کے پاس ہے اسلئے وہ بے بس اور لاعلم تھے اور اسی وجہ سے جہاز کو اترنے کی اجازت نہیں دی گئی دوسری طرف بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق عین اسی دوران بعض جہاز قریبی واقع باگرام ائربیس پر اتارے گئے جو کہ کابل کے نواح میں واقع ہے اور امریکی ‘ نیٹو حکام اکثر اپنی آمدورفت کیلئے اسی کو استعمال کرتے آئے ہیں پہلی بات تو یہ تھی کہ اگر متعلقہ حکام چاہتے تو اسلام آباد اڑان سے قبل پاکستان کو اس صورتحال کی اطلاع دیکر خود کو اس انہونی صورتحال اور شرمندگی سے بچالیتے کیونکہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان محض40منٹ کا ہوائی سفر یا فاصلہ ہے دوسرا یہ کہ اگر سیکورٹی مسئلہ واقعی درپیش تھا تو حامد کرزئی انٹرنیشنل ائرپورٹ جیسے بڑے احاطے کی کسی محفوظ جگہ پر جہاز کی لینڈنگ کیلئے خصوصی انتظامات کئے جاتے کیونکہ پاکستانی جہاز تقریباً ایک گھنٹے تک کابل کی فضاﺅں میں پرواز کرکے متبادل کی تلاش میں لینڈنگ کا انتظار کرتارہا تیسری بات جس نے افغان انتظامیہ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا وہ یہ تھی کہ اسکے سول ائرپورٹس کا کنٹرول اب بھی امریکہ اور نیٹو کے پاس ہے اور ایسے معاملات اب بھی غیر ملکی حکام ڈیل کرتے ہیں اسباب اور عوامل جو بھی ہو تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اس واقعے نے افغان حکومت کی مجموعی ساکھ‘ اختیار‘ گورننس اور طرز عمل کو بری طرح متاثر کر دیا ہے اور پاکستان کے مثبت ردعمل کے باوجود اس واقعے نے دونوں ممالک کی ان کوششوں کو سخت دھچکا پہنچایا ہے جو کہ بہتر تعلقات کے قیام‘ اعتماد کی بحالی اور تجارت کے فروغ اور آسانیوں کیلئے حکومتی اور پارلیمانی سطح پر کافی عرصہ سے کی جارہی تھیں۔