جاری طرز عمل اور خیبرپختونخوا کا اصل چہرہ۔۔۔۔

پاکستان سمیت پوری دنیا کو بوجوہ عدم برداشت‘اذیت پسندی اور عدم اطمینان پر مشتمل عوامل اور مسائل کا سامنا ہے عالمی سطح پر گریٹ ڈپریشن کی تھیوری پر بحث چل نکلی ہے تاہم اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر سطح پر ہر جگہ غلط ہی ہو رہا ہے اور مجموعی صورتحال کو ناقابل اصلاح قرار دیا جائے مسائل پہلے کے مقابلے میں کم ہو رہے ہیں تاہم ابلاغیات اور اطلاعات کی فراہمی اور ترقی کے باعث اب مسائل اور ایشوز پر بات زیادہ ہو رہی ہے اسلئے تاثر یہ لیا جاتا ہے کہ شاید حالات بہت ہی خراب ہیں اور یہ کہ جان بوجھ کر حالات کو درست نہیں کیا جارہا پہلی بات تو یہ ہے کہ حالات کسی بھی ملک یا معاشرے میں آئیڈیل نہیں ہواکرتے ہم نے کورونا بحران کے دوران بہت سے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام کو پرتشدد‘ بے بس پایا اور یہ بھی دیکھا کہ بہت سے کمزور اور پسماندہ ممالک نے زیادہ بہتر طریقے سے معاملات کو سمجھا اور ڈیل کیا درحقیقت غیر ضروری تنقید نہ صرف تیسری بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی بڑھ گئی ہے اور اسکی بنیادی وجہ شاید سوشل میڈیا تک بعض حلقوں اور لوگوں کی سستی اور آسان رسائی بھی ہے کسی بھی واقعے کو بغیر تحقیق کے بڑھاچڑھا کر پیش کرنے کے رویے نے لوگوں کو اذیت پسند اور حساس بنادیا ہے۔رواں ہفتے جہاں ملک میں ہلچل کا ماحول رہا اور بے چینی رہی وہاں اس دوران پشاور میں عرصہ18 برسوں کے بعد پہلی دفعہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس نے لمبے عرصے بعد ملک میں ایک ہی روز پہلا روزہ رکھنے کا تاریخی اعلان کیا اور علماء‘ کمیٹی‘ عوام کی جانب سے اس فیصلے کی ستائش کرکے اس کا قومی اور مذہبی یکجہتی کے تناظر میں خیر مقدم کیا گیا مگر اتنے اہم واقعے کا اس انداز سے ذکر نہیں کیا گیا جتنی اس کی اہمیت تھی رویت ہلال کمیٹی نے پاکستان کے ایک پرانے اور افسوسناک سلسلے کو ختم کرنے کی بنیاد رکھی مگر اسکی اس طریقے سے ستائش نہیں کی گئی جسکی ضرورت اور توقع تھی اسی تناظر میں مقامی رویت ہلال کمیٹی اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا بہت مثبت طرز عمل بھی دیکھنے کو ملا۔ دوسری طرف انہی دنوں جب سندھ‘ پنجاب اور اسلام آباد میں احتجاج اور مزاحمتی رویہ عروج پر تھا پشاور اور پختونخوا کی مجموعی طورتحال بہت مختلف اور بہتر رہی مگر اس رویے کا بھی کسی نے نوٹس نہیں لیا‘دوران احتجاج پشاور دوسرے صوبوں اور شہروں کے مقابلے میں بہت پرسکون اور پرامن رہا اور کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے‘ کشیدگی‘ تصادم یا تشدد کی شکایت سامنے نہیں آئی‘ عوام نے مثبت طرز عمل کی مثال قائم کرتے ہوئے عملاً پورے ملک اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ کتنے پرامن‘ منظم اور خوش اخلاق لوگ ہیں اس سے قبل بھی رواداری اور برداشت کے حوالے سے خیبرپختونخوا ایک مثالی علاقہ رہا ہے تاہم بعض حلقوں نے اسکو اسکی اصل شناخت اور کریڈٹ سے جان بوجھ کر محروم رکھا حالانکہ ایسے رویوں کی نہ صرف ستائش بلکہ تقلید بھی ہونی چاہئے تھی اس تمام تر تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ منفی رجحانات‘ پروپیگنڈے‘ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور اذیت پسندی پر مشتمل رویوں سے گریز کیا جائے کیونکہ انتہا پسندی ا ب ہر طبقے تک پھیل گئی ہے  جس پر قابو پانا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ ہمارا ملک اور معاشرہ مزید تلخیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔