جامعہ پشاور کی نئی قیادت یعنی وائس چانسلر نے اصلاحات کے نام سے جو کام کئے اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بظاہر تبدیلی کے اس کٹھن ترین عمل میں موصوف تن تنہا نظر آرہے ہیں وائس چانسلر کا نظریہ اور موقف یہ ہے کہ جامعہ سے منسلک ہر فرد کو اونر شپ کا جذبہ جگانا ہوگا اور میرے خیال میں سب سے مشکل کام یہی ہے اصلاحات کے عمل کے پہلے قدم میں یونیورسٹی ملازمین سے میڈیکل الاؤنس اور ہاؤس سبسڈی میں کٹوتی کی گئی اور یوں جس کی تنخواہ جتنی زیادہ تھی ان سے کٹوتی اتنی ہی زیادہ ہوگئی اسکے خلاف شور بھی اٹھا مخالفت میں آوازیں آئیں یہاں تک کہ اساتذہ نمائندوں کے توسط سے بات چانسلر تک پہنچی اس کا محض اتنا فائدہ ہوا کہ گورنر کی ہدایت کے تحت مراعات میں کٹوتی کا عمل تھروپراپرچینل کردیاگیا یعنی وائس چانسلر نے اس بابت محکمہ اعلیٰ تعلیم کے توسط سے صوبائی حکومت کا بھجوایا گیا مراسلہ براہ راست سنڈیکیٹ کے سامنے رکھا تھا اور اب جامعہ کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی سے پاس ہو کر سنڈیکیٹ میں آئے گا اور یوں اس تعطل کے نتیجے میں کٹوتی مہینہ دو موخر ہوجائے گی اب صورتحال یہ ہے کہ فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی نے مراعات میں کٹوتی کیساتھ ساتھ یونیورسٹی ملازمین کے یونیورسٹی کے سکولز کالجز اور شعبہ جات میں زیر تعلیم بچوں سے فیسوں کی وصولی بھی منظور کرلی اور ساتھ ہی یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ طلباء سے فیسوں کی وصولی امسال روایت کے برعکس دس فیصد کی بجائے بیس فیصد بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے جہاں تک فیسوں میں بڑھوتری کا تعلق ہے وہ تو ویسے بھی ہر دس سال بعد دگنی ہو جاتی ہیں اور یہ بھی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بقول خیبرپختونخوا کی جامعات پورے ملک میں مہنگی تعلیم دیتی ہیں مطلب یہ کہ ان کی فیسیں سب سے زیادہ ہیں یہ حقیقت اپنی جگہ کہ حکومتی عدم توجہی اور کورونا وباء کے ہاتھوں یونیورسٹیاں تالہ بندی کی حد تک پہنچ چکی ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ جو کام حکومت اور یونیورسٹی کا ہے وہ طلباء سے لیا جائے؟ بات جامعہ پشاور میں اصلاحات کی شروعات کی ہو رہی تھی جس میں الاؤنسز کٹوتی اور ملازمین کے بچوں سے فیس وصولی جیسے اقدامات کو قانونی شکل دی گئی جبکہ یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ گاڑیوں کے غیر ضروری اور غیر قانونی استعمال کا سدباب ہو اور غالباً اسی کوشش میں چند گاڑیاں پول میں کھڑی بھی کردی گئی ہیں مگر اس کوشش میں مزید تیزی اور نتیجہ خیزی کی ضرورت ہے اگر ہوسکے تو بجلی‘گیس پانی اور فون کے استعمال میں بچت کی گنجائش بھی نظر اندازنہیں ہونی چاہئے جامعہ میں جس تیزی سے اصلاحات ہو رہی ہیں بالکل اسی رفتار سے ملازمین بالخصوص کلاس تھری اور کلاس فور کے سیخ پا ہونے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے درحقیقت تبدیلی کا عمل کافی صبرآزما اور باعث تکلیف ہوتا ہے اصلاح کا مطلب کسی چیز کو اپنی اصل حالت سے ایک نئی اور بہتر حالت میں تبدیل کرنا ہوتا ہے جامعہ کے وائس چانسلر نے اپنی کوششوں کو شاید اسلئے اصلاحات اور اونرشپ کا جذبہ جگانے کا نام دیا ہے کہ تبدیلی کے نعرے کا ریکارڈ کچھ باعث فخر اور حوصلہ افزاء نہیں ہے البتہ ان کوششوں میں ایک ازحد ضروری بات نظر انداز کردی گئی اور وہ رمضان کے دوران دفتری اوقات کار کے حوالے سے ہے۔ حالانکہ اللہ کے ایک بندے نے وائس چانسلر کی توجہ اس جانب مبذول کراکر ان سے کہا بھی تھا کہ روزوں میں صبح آٹھ بجے حاضری اور دوپہر ایک بجے چھٹی یعنی پانچ گھنٹے کام بھی غنیمت ہے مگر اس تجویز پر عمل درآمد کی بجائے دیر سے آنے اور جلدی اٹھنے کے عادی ملازمین کو اپنے حال پر ہی چھوڑ کر نہ جانے یہاں پر اصلاح کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی؟ وہی صبح ساڑھے سات بجے حاضری اور دوپہر ڈیڑھ بجے چھٹی کا ٹائم مقرر کردیاگیا اب وائس چانسلر کو چاہئے کہ ذرا زحمت گوارا کرکے یہ پتہ تو لگائیں کہ ساڑھے سات بجے کتنے ملازمین آتے ہیں؟ اور ڈیڑھ بجے تک کتنے بیٹھ کرکام کرتے ہیں؟ اللہ نہ کرے کہ گزشتہ کی طرح امسال بھی گھنٹہ ڈیڑھ ڈیوٹی کا وقت ہڑپ کرنے والے اس مبارک مہینے میں اپنے نیک اعمال کا نقصان کربیٹھیں۔