امریکہ نے بیس سال تک جنگ زدہ افغانستان میں قیام اور جنگیں لڑنے کے بعد ستمبر 2021 میں اپنے انخلاء کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ نیٹو نے بھی اس کی تقلید میں فورسز نکالنے کااعلامیہ جاری کردیا ہے، تاہم متحارب گروپ اور دوحا معاہدے کے دوسرے فریق طالبان نے امریکی صدر جوبائیڈن کے انخلاء کے باضابطہ اعلان کو تاخیری حربہ قرار دیتے ہوئے امریکہ پر وعدہ خلافی کا الزام لگا کر کہا کہ اب جنگ میں شدت لائی جائیگی اور انہوں نے استنبول کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کر دیا جس کے نتیجے یہ کانفرنس ملتوی کر دی گئی۔طالبان دوحا معاہدے کے مطابق یکم مئی سے قبل امریکی انخلاء چاہتے ہیں، نئے امریکی صدر جو بائیڈن اوبامہ کے ساتھ نائب صدر کے اہم عہدے پر فائز تھے اور افغانستان کے بارے میں ان کا رویہ نہ صرف یہ کہ بہت جارحانہ رہا ہے بلکہ وہ خطے کے سیاسی اور جغرافیائی حالات اور واقعات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ صدر بنتے ہی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوحا معاہدے پر نظر ثانی کر سکتے ہیں،تاہم ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ افغانستان کے اوپراٹھنے والے اخراجات کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف افغان طالبان نے پہلے دن سے ہی موقف اپنایا ہے کہ امریکہ دوحا معاہدے کے مطابق یکم مئی2021 سے قبل افغان سرزمین سے مکمل فوجی انخلاء کا پابند ہے اور اگر اس پر عمل نہیں کیا گیا تو طالبان دوحامعاہدہ اور سیز فائر دونوں توڑنے میں حق بجانب ہوں گے۔اسی دوران طالبان کے ساتھ بعض اہم ممالک کا بھی یہ موقف رہا کہ انخلاء کے باوجود انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی کیلئے ایک مجوزہ عبوری حکومت کا قیام ضروری ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اشرف غنی مسلسل مزاحمت کرتے رہے مگر کچھ ہفتے قبل انہوں نے بھی نرمی دکھاتے ہوئے گرین سگنل دے دیا۔ اب صورتحال یہ بنی ہے کہ اگر طالبان اور امریکہ مئی اور ستمبر کی ڈیڈ لائنز پر ڈٹے رہے اور ان کے درمیان کوئی تیسرا راستہ نہیں نکل آیا تو حالات خراب ہوجائیں گے اور انٹرا فغان ڈائیلاگ کا انعقاد تو دور کی بات دوحا معاہدے کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ تجزیہ کار اس نئی صورتحال کو بہت تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور طالبان کے سخت گیر رویے اور موقف کو مجوزہ مذاکراتی عمل کیلئے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔معتبر عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پڑوسی ملک افغانستان میں دوحا معاہدے کے باوجود امن و امان کی مجموعی صورتحال بہت خراب رہی اور ہزاروں لوگ دو طرفہ حملوں کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کہا جارہاہے کہ 2002کے بعد اب تک دو لاکھ 41ہزار فراد جاں بحق ہوئے جبکہ تین ٹریلین ڈالرز خرچ کئے گئے۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2020کے دوران 34صوبوں میں مجموعی طور پر امریکی اور افغان فورسز کے ہاتھوں 1840عام شہری جاں بحق ہوگئے۔ جبکہ 2000شہری زخمی ہوئے۔ یو این کی رپورٹ کے مطابق 2020میں یکم جنوری سے تیس نومبر تک حملوں اور تشدد کے 7845واقعات ہوئے جن کے نتیجے میں 2711ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 5140افراد زخمی ہوئے۔ یو این کی ایک رپورٹ کے مطابق 46فیصد حملوں میں افغان طالبان ملوث رہے تو دوسری طرف بائیس فیصد واقعات میں افغان فورسز اور چار فیصد میں امریکی نیٹو فورسز ملوث رہی ہیں۔ یو این رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2020-21کے عرصے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 35سے 40فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ علماء کونسل نامی فورم کے مطابق اس عرصے میں 92علماء کو حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے نتیجے میں زندگی سے محروم کر دیا گیا۔ اکتوبر2020 سے 31جنوری 2021 کے عرصہ کے دوران محض چھ ماہ کی قلیل مدت میں افغانستان کے 42فیصد علاقوں میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق افغان فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں 1800طالبان کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے تاہم دوسری طرف ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے 2020-21 کے دوران طالبان کے ساتھ جھڑپوں، دھماکوں اور حملوں میں مجموعی طور پر افغان فورسز کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار جاں بحق جبکہ 1000زخمی ہوئے۔ طالبان نے افغان وزارت دفاع کے دعوے کو غلط قرار دیا ہے۔ ان رپورٹس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف طالبان نے ریکارڈ حملے کئے اور مزید کااعلان کر رکھا ہے تو گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان فورسز نے بھی ریکارڈ کاروائیاں کیں جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ اگر کشیدگی بڑھ گئی تو صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔