اسلام آباد: نئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے واضح کردیا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح 6 تا 7 کی شرح نمو حاصل کرنا ہے۔
اب تک لگائے گئے تخمینوں کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صرف 1.5 فیصد رہے گی۔ شوکت ترین کو ورثے میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ضرور ملا ہے، تاہم برآمدات منجمد ہیں اور سرکاری قرضے خطرناک حدوں کو چُھو رہے ہیں جس کی وجہ سے نئے وزیرخزانہ کے لیے آپشن محدود ہوگئے ہیں۔
اگلے بجٹ کا لگ بھگ 50فیصد قرضوں کی ادائیگی میں چلاجائے گا تو شوکت ترین کو معاشی شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ ایسے حالات میں جب عام انتخابات دو سال کی دوری پر ہیں اور حکومت کی معاشی طور پر ناکامی کا تصور قائم ہوچکا ہے، بلند شرح نمو صرف ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے ، چاہے اس کے لیے قرضہ لیا جائے یا پھر سرمایہ کاری حاصل کی جائے۔
بدقسمتی سے غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم پچھلے ایک سال کے دوران محدود ہوتا چلاگیا ہے اور پاکستان میں باہر سے نئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔ نئے وزیرخزانہ کو تین اہداف مقرر کرنے چاہییں: غیرترقیاتی اخراجات میں کمی، سبسڈیز کا خاتمہ اور ٹیکس کی شرح میں کمی۔ ابتدائی دونوں اہداف سے 10کھرب روپے کی بچت ہوگی اور تیسرے ہدف کے حصول سے فرموں اور گھریلوں سطح پر آمدن بڑھے گی۔
یہ تینوں اہداف ایک ہی مالی سال میں حاصل کیے جاسکتے ہیں اور یہ معاشی شرح نمو کے اہداف کے حصول میں بے حد معاون ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔