جامعہ پشاور‘ گرانٹ کی دوسری ڈوز۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ عادت بری بلا ہے غالباً اسلئے غالب نے ”منہ سے یہ کافر لگی ہوئی“ والا شعر بھی کہا تھا عقل کے  بینا لوگوں کا کہنا ہے کہ جب عادت مسلسل ہو جانے سے پختہ ہو جاتی ہے تو انسانی فطرت کا جز بن جاتی ہے یہی وجہ تھی کہ جامعہ پشاور کی مجاز اتھارٹی کو رمضان کیلئے مقرر کردہ دفتری اوقات کار کو تبدیل کرنا پڑا جامعہ کے ایک دیرینہ بہی خوا نے رمضان سے قبل وائس چانسلر سے کہا بھی تھا کہ اونر شپ کے جذبے سے عاری یہ لوگ وقت کی پابندی کے عادی نہیں لہٰذا دفتری اوقات میں آنے جانے کا وقت ذرا سوچ سمجھ کر متعین کرنا ہوگا رائے دینے والے نے یہاں تک کہا تھا کہ روزوں میں جتنی ممکن ہو سکے ملازمین کو سہولت پہنچائی جائے یعنی گھنٹے گننے کی بجائے کام کیلئے قدرے مختصر وقت رکھا جائے تاکہ ملازمین کو روایتی عادتی طرز عمل سے بچایا جاسکے مگر کیا کریں کہ وائس چانسلر صاحب اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ جب دفتری کام کیلئے وقت مقرر ہو تو پھر ملازمین کی کیا مجال کہ اس کی پاسداری نہ کریں مگر ہوا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے یعنی صبح ساڑھے سات بجے حاضری محض رجسٹرڈ میں رہی عملاً بالکل نہیں اور غالباً یہی وجہ تھی کہ جب وائس چانسلر کو پتہ چلاکہ ملازمین ساڑھے سات بجے آتے ہیں اور نہ ہی ڈیڑھ بجے کا انتظار کرتے ہیں تو موصوف نے اوقاف کار پر نظرثانی کرکے ساڑھے آٹھ بجے حاضری اور ڈھائی بجے چھٹی کا نظرثانی شدہ اعلامیہ جاری کر دیا مگر اب بھی یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ اس نئے نظام الاوقات کی پابندی بالخصوص چھٹی کے وقت کی پاسداری کتنے لوگ کرتے ہیں؟ یعنی ایک بجے یا اس سے بھی پہلے نماز کیلئے اٹھ کر جانیوالوں میں سے کتنے لوگ واپس آکر کام شروع کر دیتے ہیں؟ مطلب یہ کہ جس طرح لوگ کورونا اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کو سنجیدہ نہیں لے رہے بلکہ حکومتی بڑوں کی اپیل پر عوام سے اکثریت کاردعمل کچھ یوں ہوتا ہے کہ پہلے تو حکمران خود احتیاطی تدابیر پر کاربند ہونے کا ثبوت دیں پھر عوام سے توقع رکھیں کہتے ہیں کہ کورونا عمررسیدہ اور کمزور لوگوں کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے وینٹی لیٹر تک پہنچنے والوں میں بھی اکثریت کمزور لوگوں کی ہوتی ہے شاید جامعہ پشاور بھی بہ لحاظ عمر اور بہ لحاظ کمزور پن وینٹی لیٹر پر پہنچ گئی ہیں اور اب حکومت کی گرانٹ کی ڈوز پر زندہ ہے اب یہ جامعہ کے نئے وائس چانسلر کی بہتر حکمت عملی سمجھ لیں یا حکومتی دل میں قدیم درسگاہ کیلئے نرم گوشہ جاگنے کا نتیجہ کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جامعہ کو مالی لحاظ سے حالت نزع میں خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے گرانٹ کی ڈوز دو مرتبہ دی گئی ہے اور بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ جب تک مریض وینٹی لیٹر پر پڑا ہو تب تک ڈوز کی فراہمی وقتاً فوقتاً جاری رہے تاوقتیکہ وینٹی لیٹر سے اتر کر چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے اب اس درمیان ایک خلش یہ بھی ہے کہ جامعہ پشاور کے معاملے میں یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ حکومتی گرانٹ کی ڈوز سے یہ عمر رسیدہ اور  کمزورمریض صحت یاب ہو بھی جائے گا یا نہیں؟ وائس چانسلر صاحب تو پرامید ہیں مگر ساتھ ہی مریض اور اسکے تیمارداروں کی احتیاطی اور اصلاحی تدابیر کی پاسداری پر بھی زور دے رہے ہیں مگر تیماردار یہ ایک کٹھن کام قرار دیتے ہوئے مریض کی صحت کیلئے کسی قسم کی اصلاح‘ تدبیر اور تکلیف گوارا کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہے ہیں اسکا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مریض بے چارہ گرانٹ کی ڈوز پر اکتفا کرتے کرتے رخصت ہی نہ ہو جائے اور یوں تیماردار دیکھتے رہ جائیں بالکل اسی طرح جیسے جامعہ میں کئی سال کام کرنیوالے تقریباً چھ سو عارضی ملازمین کیساتھ ہوا یہاں پر یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ نئے وائس چانسلر نے اونرشپ کا جذبہ بیدار کرنے کی جو کوشش شروع کر رکھی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔