نسل پرستی اور قوم پرستی کا پس منظر۔۔۔

دنیا میں سب سے زیادہ جنگیں مذہب کے بعد قوم پرستی اور نسل پرستی کے نام پر لڑی گئی ہیں اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکہ جیسا جدید ملک بھی اتنی ترقی اور ٹیکنالوجی کے باوجود نسل پرستی کو اپنے لئے نہ صرف یہ کہ خطرہ سمجھتا ہے بلکہ یہ اس مسئلے کے حل میں ناکام بھی رہا ہے اسکی تازہ مثال گزشتہ برس چند سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری کی ہلاکت کا وہ واقعہ ہے جس نے جہاں امریکہ کو اخلاقی طور پر ہلاکر رکھ دیا وہاں کئی ہفتوں تک پرتشدد مظاہرے ہوئے جن کے  دوران ایک رپورٹ کے مطابق19افراد ہلاک اور180 زخمی ہوئے نسل پرستی اور قوم پرستی کو کتنا خطرناک طرز عمل سمجھا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم جیسے انسانیت کش واقعات نے اسی سے جنم لیا بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مذہب ہی زیادہ تر جنگوں کا سبب بنتا آیا ہے تاہم اس حقیقت کو تاریخی حقائق کے تناظر میں قطعاً نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ معلوم تاریخ میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد کے تناظر میں قوم پرستی یا تنگ نظری ہی وہ واحد ہتھیار رہا ہے جس نے دنیا کے ہر خطے میں لاکھوں انسانوں کو زندگی اور امن سے محروم کیا  جنکے دوران مختلف قوموں پا قومیتوں نے ہم مذہب ہو کر بھی لاکھوں انسانوں کا خون بہایا۔جرمن قوم ہٹلر کی قیادت میں ان طبقوں اور ممالک پر بھی چڑھ دوڑی جو کہ ان کے ہم مذہب تھے بنیادی وجہ جرمن قوم اور ہٹلر کی یہ سوچ تھی کہ وہ دوسروں سے معتبر اور غیرت مند ہیں امریکہ اور برطانیہ نے تاریخ کی تین بڑی جنگیں بھی اسی نفسیاتی برتری یا فلسفے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف لڑیں کہ ہر فریق خود کو برتر سمجھ رہا تھا بھارت اور سری لنکا کی اکثریت ہندو آبادی یا ایک ہی مذہب پر مشتمل ہے تاہم بعض دوسری قوموں یا ممالک کی طرح بھی ماضی قریب میں ایک دوسرے کے بدترین مخالف رہے ہیں اس ضممن میں شورش زدہ افغانستان کی مثال بھی دی جا سکتی ہیں جہاں ہزارہ‘ ازبک اور تاجک پشتونوں کے ہر دور میں مخالف رہے ہیں اور سال1980ء کے کمیونسٹ انقلاب سے لیکر‘ مجاہدین اور ان سے ہوتے ہوئے طالبان کے دور تک اس ملک میں نسلی مسئلے کو بنیادی ایشو کا درجہ حاصل رہا حالانکہ یہاں کے97 فیصد لوگ نہ صرف یہ کہ مسلمان ہیں بلکہ یہ اپنی افغانیت پر فخر بھی کرتے ہیں مگر قومیتوں کے مسائل ہر دور میں موجود رہے یورپ بھی اس مسئلے کا نہ صرف مختلف ادوار میں شکار رہا ہے بلکہ رواں صدی کے دوران اس مسئلے کی شدت میں پرتشدد اضافہ ہوا اور مختلف ممالک‘ برطانیہ کے درمیان بعض معاشی مسائل کے علاوہ نسل پرستی کی بنیاد پر تعلقات بہت کشیدہ رہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نسل پرستی اور قوم پرستی نہ صرف ماضی کی تلخیوں اور جنگوں کی وجہ رہی ہیں بلکہ اب بھی یہ یورپ شدت کے ساتھ دنیا کے تقریباً ہر خطے‘ ملک اور معاشرے میں موجود ہیں بعض حلقوں کی خیال ہے کہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے بعض لوگوں نے جو مزاحمت اپنائی وہ انکی اپنی پیدا کردہ تھی حالانکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ فاصلے اور نفرتیں بڑھانے کی بنیاد بعض امریکی اور مغربی حکمرانوں کے علاوہ ”تہذیبوں کے تصادم“ نامی شرانگیز تھیوری نے رکھی تھی جس نے مسلمانوں کو امریکہ اور یورپ کا دشمن نمبر ون قرار دینے کا ان دی ریکارڈ فارمولہ پیش کیا۔نسل پرستی کا مسئلہ ایک عالمی ایشو تھا ہے اور رہے گا‘ پاکستان مقبول عام تصور یا تجزیوں کے برعکس متعدد پڑوسی ممالک اور دوسروں سے بہتر اسلئے ہے کہ اسکا سیاسی اور آئینی ڈھانچہ مختلف تجربات ترامیم اور اصلاحات سے گزر کر کافی موثر اور مضبوط ہو چکا ہے جبکہ مختلف نسلوں اور قومیتوں کے درمیان ایک دوسرے پر موجود انحصار اور سوشل کنٹریکٹ بھی تلخیوں یا شکایات کو دائمی مخالفت یا مزاحمت میں تبدیل نہیں ہونے دے رہے ایک دوسرے پر انحصار‘ مسلسل آمدورفت اور سیاسی‘ معاشی ضرورتوں نے پاکستان کے فیڈریشن کو مضبوط بنا کر رکھ دیا ہے ایسے میں ان عناصر یا قوتوں کو کوئی عملی کامیابی نہیں مل پائی جن کی کوشش رہی کہ پاکستان کو نسلی یا قومیتوں کی بنیاد پر تقسیم یا کمزور کیا جاسکے اسلئے بہتر آپشن یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسکے فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اسے مضبوط بنایا جائے۔