افغانستان میں بد امنی اور کشیدگی بڑھتی جار ہی ہے، جس کے منفی اثرات حسب توقع اب پاکستان پر بھی پڑنے لگے ہیں جبکہ اس خدشے کا اب سرعام اظہار ہونے لگا ہے کہ اگر افغان حکمرانوں، سیاستدانوں اور ان کے اتحادیوں نے ذمہ داری اور ہوش سے کام نہیں لیا تو 90کی دہائی کی طرح نہ صرف یہ کہ افغانستان پھر سے خانہ جنگی کی صورتحال سے دوچار ہوجائے گا بلکہ پڑوسی ممالک بھی اپنے خدشات کے تناظر میں خاموش نہیں رہیں گے۔ ہفتہ رفتہ کے دوران افغان نائب صدر کے ساتھ صدر اشرف غنی نے بھی ایک مضمون کے دوران حسب سابق جاری حالات کی ذمہ داری دوسروں خصوصاً پاکستان پرڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب یہ فیصلہ کرے کہ وہ افغانستان کا دوست ہے یا دشمن؟ پاکستان کے بارے میں اس طرح کا سوال کرنا اس حوالے سے مناسب طرز عمل نہیں کہلایا جاسکتا کہ اشرف غنی سمیت امریکہ، اقوام متحدہ اور متعدد دوسرے ممالک بھی کچھ عرصہ قبل پاکستان کے مثبت اور مصالحانہ کردار کا کئی بار نہ صرف اعتراف کرچکے ہیں بلکہ پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر ناگزیر بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ افغانوں کااپنا پیدا کردہ ہے اور وہ یہ کہ کرسی کی قربانی نہیں دے رہے اور انا پرستی کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ طالبان افغان حکومت کو سرے سے تسلیم نہیں کر رہے اور اب دوحا معاہدہ توڑنے یا اس کی خلاف ورزی پر تلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف کابل میں متعدد ایسے اہم لوگ حکومت کا حصہ ہیں جو کہ امن کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ہر مسئلے اور ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کا فارمولا اورطریقہ شاید اب دنیا کے ساتھ ساتھ افغان عوام کیلئے بھی قابل قبول نہیں رہا ار غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ افغان پارلیمنٹ اور سینٹ کے درجنوں نمائندوں نے کئی اجلاسوں کے دوران بدامنی اور کشیدگی کی براہ راست ذمہ داری حکومت پر ڈال دی۔ بلوچستان کے علاقے ژوب میں افغان سائڈ سے پاکستان کی فرنٹیئر کور پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں تقریباً نصف درجن جوان شہید اور زخمی ہوئے جبکہ ایک اور کاروائی کے دوران شمالی وزیر ستان میں کپٹن سمیت 3جوان شہید اور زخمی ہوئے۔ ژوب حملے کی بظاہر ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی جس کے تقریباً 6ہزار افراد نے اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور بعض افغان ادارے ان کی باقاعدہ سرپرستی اور معاونت کر رہے ہیں۔ ایسے حملے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان سے دو نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغان فورسز اور حکومت کا اپنے علاقوں میں رٹ عملاً نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسرا یہ کہ اگر ایسا نہیں تو پاکستان پر حکومتی سرپرستی میں ہی حملے کرائے جار ہے ہیں۔ یہ صورتحال جہاں دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھا رہی ہے بلکہ اس سے امن کاعمل بھی متاثر ہوسکتا ہے۔یہ امر قابل تشویش ہے کہ افغانستان کے اندر سیکورٹی فورسز کی حالیہ کاروائیوں کے دوران عام شہری بڑی تعداد میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں ہلمند کی مثال دی جاسکتی ہے۔جہاں افغان ائر فورس کی بمباری سے درجنوں ہلاکتیں ہوئیں، شہداء میں تقریباً دو درجن بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو حلقے طالبان کے حملوں پر آسمان سر پر اٹھاتے آئے ہیں وہ ان سویلین ہلاکتوں اور غیر منظم کاروائیوں پر خاموش کیوں ہیں؟ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران ریاستی فورسز خصوصاً ائرفورس کے حملوں کے نتیجے میں 1600بچے شہید ہوچکے ہیں۔ان فضائی حملوں کے دوران3977جو شہری جاں بحق1598بچیاں اور بچے شامل ہیں‘ مجموعی فضائی حملوں میں بچوں کی ہلاکت کا تناسب 44فیصد رہی ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہلمند کے حالیہ فضائی حملوں پر افغانستان کے اندر اور باہر شدید قسم کاردعمل آیا مگر افغان حکومت کے ایک ذمہ دارنے یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا کہ اگر ہلاک بچے اور خواتین بے قصور تھے تو بھی ان کا قصور یہ تھا کہ ہلمند کے عوام طالبان کے ہمدرد رہے ہیں۔ دوسری طرف نیویارک ٹائمز نے 5مئی کی اپنی اشاعت میں خدشہ ظاہر کیا کہ جس جنگ کی ابتداء 2001ء میں القاعدہ کے خاتمے کیلئے خونریزی سے کی گئی تھی لگ یہ رہا ہے کہ اب ایک اور بڑی جنگ امریکی انخلاء کے بعد لڑی جائیگی اور یہ کہ نوے کی دہائی کی تاریخ دہرا ئی جاسکتی ہے۔امریکی سیکرٹری خارجہ نے 6مئی کو کہا کہ افغانستان کے اداروں کا دفاع کرنا اب افغان حکومت کا کام ہے ہم محض ان کو سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں مگر فریق بننے کا ہمارا کردار ختم ہو چکا ہے۔انہوں نے اپنے بیان میں پاکستان کے کردار کو سراہنے کے ساتھ اہم ترین قرار دے دیا جبکہ اسی روز امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی پاکستان کے مذاکراتی عمل میں ادا کئے گئے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اب بھی پاکستانی کردار کی اشد ضرورت ہے۔ان کے مطابق پاکستان خطے کا موثر ملک تھا اور ہے۔جس روز افغان فورسز نے ہلمند میں سویلین کو نشانہ بنایا اسی روز خیبر پختونخوا کے علاقے باجوڑ میں موجود سیکورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر افغان سرزمین سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تین سیکورٹی ہلکار زخمی ہوئے۔ یہ ایک ہفتے کے دوران ژوب بلوچستان کے بعد پاکستانی علاقوں پر بڑا حملہ تھا جس پر پاکستان نے رسمی طور پر احتجاج کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ رواں برس پاکستان کے علاقوں اور سیکورٹی فورسز پر18سرحد پار حملے کرائے گئے جو کہ دو طرفہ کشیدگی اور بداعتمادی کوبڑھا رہے ہیں۔