عیدالفطر کے تین چار دن افغانستان اور فلسطین کے عوام کیلئے بہت بھاری ثابت ہوئے افغانستان میں عید کے دوسرے روز کابل کے نواحی علاقے میں مسجد میں بم دھماکہ کرایا گیا جسکے باعث ایک درجن نمازی جاں بحق ہوگئے جبکہ فلسطین میں عید کے دنوں کے دوران بدترین اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تقریباً200 شہری جاں بحق اور400زخمی ہوگئے شہداء میں 100کے قریب خواتین اور بچے بھی شامل ہیں یہ سلسلہ تاحال پوری شدت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جاری ہے اور مسلمان ممالک سمیت عالمی برادری کا کردار بھی محض رسمی اور مذمتی بیانات تک محدود ہے افغانستان کے حالات افغان قیادت کے باہمی اختلافات کے باعث حل ہونے کی بجائے پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ عملاً افغانستان میں خانہ جنگی کا غیر اعلانیہ آغاز ہوچکا ہے تاہم افغان حکومت کے بعض اہم عہدیداران بوجوہ نہ صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور ہر واقعہ کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرا رہے ہیں بلکہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یہ لوگ پھر سے اسکے باوجود پاکستان پر الزامات لگارہے ہیں کہ پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان امریکہ اور برطانیہ کی خواہش پر ایک مجوزہ دفاعی معاہدے کی اطلاعات اور بعض دیگر اقدامات بھی پائپ لائن میں ہیں‘ آرمی چیف قمرجاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید گزشتہ دنوں کابل گئے جہاں انہوں نے برطانیہ کے آرمی چیف کی موجودگی میں ڈاکٹر اشرف غنی‘ عبداللہ عبداللہ اور دیگر سے اہم ملاقاتیں کیں ان ملاقاتوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ افغانستان اور خطے کے بارے میں ایک موثر روڈ میپ اور حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا اور حملوں کی تعداد میں اضافے کے اسباب اور روک تھام پر بھی گفتگو ہوئی بعض حلقوں کے مطابق عالمی سطح پر طے پایا ہے کہ پاکستان افغان حکومت کو بچانے کیلئے دوسرے اقدامات کے علاوہ اسکی سیکورٹی کے معاملات کی بھی سرپرستی اور رہنمائی کرے تاکہ اسے گرانے سے بچایا جائے حالانکہ ایسا ہونے کی صورت میں طالبان کے علاوہ دوسری سیاسی قوتوں اور عوام کو ناراض کرنے کا یقینی رسک اور خطرہ موجود ہے اسکے باوجود اگر واقعی یہ آپشن زیر بحث ہے اور امریکہ اب برطانیہ کو سامنے لے کرآیا ہے تو یہ ایک ایسی نئی صف بندی کا آغاز ہوگا جسکے اثرات اور نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں المیہ یہ ہے کہ اس قسم کی اطلاعات کے بعد افغانستان کے بعض اہم عہدیداران غیر ضروری طورپر پاکستان کے خلاف ماضی کی کہانیاں لیکر چڑھ دوڑے اور جلال آباد میں ایک ایونٹ سے خطاب کے دوران ایک اہم عہدیدار حمد اللہ محب نے پاکستان کو طعنے اوردھمکیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا حالانکہ ان سمیت سب کو علم ہے کہ جاری صف بندی میں انکی حکومت کو وہی اہمیت دی جارہی ہے جو کہ دوحا معاہدے کے دوران دی گئی تھی طالبان نے کابل کے دونوں بڑے حملوں کی کھل کر مذمت کی اور ان حملوں کو داعش کے علاوہ ان سہولت کاروں کی کارستانی قرار دے چکے ہیں جو کہ امن اور مذاکرات کے محدود امکانات کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں مگر افغان حکومت کی سوئی تاحال طالبان اورپاکستان پر اٹکی ہوئی ہے اور انکو دوسرے عوامل اور کردار نظرنہیں آرہے جوکہ افغانستان کے سابقہ اور موجودہ حالات کے براہ راست ذمہ دار ہیں جناب محب ڈاکٹر نجیب اللہ کی یاد میں منعقدہ ایونٹ کے دوران بہت کچھ کہنے سے قبل یہ بھول گئے کہ90کی دہائی میں نجیب اللہ کے ساتھی ایسے ہی باتیں اور دعوے کیا کرتے تھے جو کہ موصوف اور بعض دیگر چند دنوں سے کر رہے ہیں تاہم بعد میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا افسوسناک باب ہے نہ تو ڈھائی لاکھ فوج کسی کو نظرآئی نہ نجیب اللہ خود کو بچاسکے اور نہ ہی خانہ جنگی کا راستہ روکا جا سکا جو قوم پرست آج افغان فوج اور حکومت کو تھپکیاں دے رہے ہیں نجیب اللہ کی موت کے بعد وہ ان کی بہن اور والدہ کی فون کالز بھی وصول نہیں کر رہے تھے حالانکہ دونوں خواتین گلبرگ پشاور میں کرایہ کے ایک مکان میں بے بسی کی زندگی گزار رہی تھیں اگرخدانخواستہ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے پر اتر آئی تو نقصان بریف کیس نما لیڈروں کا نہیں بلکہ ان افغانوں کا ہوگا جو کہ40 سال سے جنگیں بھگت رہے ہیں اور ان میں 30 لاکھ اب بھی پاکستان نامی اس ملک میں قیام پذیر ہیں جن کو انکے لیڈر دشمن سمجھ رہے ہیں معتبر رپورٹس کے مطابق افغانستان کے بارے میں پاکستان کی مجوزہ تجاویز اور روڈ میپ کو امریکہ اوربرطانیہ کے علاوہ چین اور روس سمیت بعض دوسرے اہم ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم سیاسی تجزیہ کار افغان حکومت کو کوئی بڑی سپورٹ فراہم کرنے کی اطلاعات کو پاکستان کیلئے خطرناک تجربہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ طالبان کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے اور اسکے برعکس افغان حکمران اور سیاستدان ان خطرات اور چیلنجز کا تاحال ادراک نہیں کرپارہے جوکہ ان سمیت پورے ملک کو درپیش ہیں سفارتی اور عسکری حلقوں کے مطابق ایک نمائندہ عبوری حکومت کے قیام کے بغیر مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا اور حالیہ مذاکرات کے دوران دوحا میں اس آپشن کو پھر سے زیر غور لایا گیا ہے اس ضمن میں کابل میں حامد کرزئی کی رہائش گاہ پر ڈاکٹر اشرف غنی اور گلبدین حکمت یار کی اہم ملاقات سمیت لندن اور واشنگٹن میں کئے گئے رابطوں کو غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے جنکے بارے میں کہا جارہا ہے کہ بعض سیکورٹی اقدامات کے علاوہ ایک متبادل مگر سب کو قابل قبول نگران یا عبوری سیٹ اپ کو حتمی شکل دی جارہی ہے کہا جاسکتا ہے کہ مئی اور جون کے مہینوں میں بہت تبدیلیاں رونما ہونگی کیونکہ چار بڑے کھلاڑی یعنی امریکہ‘ روس‘ برطانیہ اور چین بہت متحرک ہوگئے ہیں۔