آن لائن تعلیم‘ نیٹ کہاں ہے؟ 

 ہمارے ہاں آن لائن کلاسز یا آن لائن تعلیم کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پاکستانی چاند کی سطح پر کھیتی باڑی کا تصور کرے کہتے ہیں کہ طلباء کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے لہٰذاآن لائن کلاسز کا اہتمام کریں بہت خوب مگر ایسی کلاسز کیلئے تو کم از کم فورجی انٹرنیٹ کی دستیابی ناگزیر ہوتی ہے اور یہاں پر حالت یہ ہے کہ  دور افتادہ اور پسماندہ قبائلی اضلاع‘ جنوبی اضلاع اور شمالی علاقہ جات تو خیر دور کی بات خود جامعات کے اندر بھی نیٹ کی مطلوبہ سہولت دستیاب نہیں تو آن لائن تعلیم و تدریس کیسے ممکن ہے؟ کورونا کے حملہ آور ہونے کا چودہ مہینے کا عرصہ گزر گیا اس دوران چارمرتبہ تعلیمی لاک ڈاؤن عمل میں لایا گیا مگر وہ بات تاحال سچ ثابت نہیں ہوئی جو کورونا کی ابتداء میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے کہی تھی کہ اساتذہ اور طلباء کو آن لائن کلاسز کیلئے مطلوبہ انٹرنیٹ سہولت کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے گی کمیشن کے چیئرمین نے میڈیا پر آکر یہاں تک کہا تھا کہ مختلف آئی ٹی کمپنیوں سے بات چیت ہو رہی ہے ممکن ہے کہ بات چیت اب بھی چل رہی ہو لیکن آن لائن کلاسز کے حشر کے بارے میں کچھ معلوم کرنا مطلوب ہو تو دورمت جایئے بلکہ مادر علمی جامعہ پشاور کے اساتذہ اور طلباء ہی کافی ہیں اساتذہ اور طلباء میں سے کسی کی بھی اس بابت دورائے نہیں کہ نام نہاد آن لائن کلاسز سے پچاس فیصد سے زائد طلباء محروم رہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے مطلوبہ انٹرنیٹ کی دستیابی یقینی بنائی گئی اور نہ ہی طلباء کیلئے کوئی پیکیج دیا گیا اسے کہتے ہیں انتظام انصرام‘ تعلیم سے حکومت کی اسی معاندانہ سلوک نے طلباء بالخصوص پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کو احتجاج پر مجبور کردیا ہے اور وہ تعلیم بچاؤ مہم چلا رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ تعلیم بچاؤ صرف اساتذہ طلباء اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کام ہے یا اس میں حکومت پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ آیا حکومت محض تعلیمی لاک ڈاؤن کا اعلان اور نفاذ کرکے بری الذمہ ہو سکتی ہے؟ طلباء کی زندگی کا تحفظ اپنی جگہ مگر ان کی تعلیمی بربادی روکنے کیلئے کیا ہورہا ہے؟ چودہ مہینے گزرگئے مگر اب بھی وقت ہے کہ تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے بصورت دیگر تعلیم مکمل طورپر درگور ہونے کاجو بھیانک نتیجہ نکلے گا وہ کسی کیلئے بھی بہتر نہیں ہوگا۔ یہ ہر باشعور اور محب الوطن شہر ی کے ضمیر کی آواز ہے کہ خدارا تعلیم کو بچاؤ چاہے اس کیلئے قومی چندہ مہم چلانا ہی ناگزیر کیوں نہ ہو صنعت و تجارت اور سیاست کی طرح بازاروں کے کاروبار کی سرگرمیاں تعطل کے بعد دوبارہ بحال ہو جائیں گی مگر تعلیمی ضیاع کا کوئی ازالہ نہیں جس طرح طلباء کا ایک سال ضائع ہوا اور دوسرا ضائع ہونا ابھی شروع ہے یہ وقت لوٹ کر آنیوالا نہیں اور پھر حکومت کے اس اعلان کے پیش نظر تو تعلیم کے بارے میں ریاستی سنجیدگی کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ امسال کسی طالب علم کو بغیر امتحان پاس نہیں کیا جائیگا اب یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ جب تعلیم و تدریس نہیں یعنی آن لائن کلاسز کیلئے مطلوبہ انٹرنیٹ کا انتظام حکومت کے بس میں نہیں تو پھر امتحان کس بات کا؟۔