ایک بار پھر گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں موجود ایک سرحدی چیک پوسٹ پر سرحد پار سے حملہ کیاگیا جس کے نتیجے میں جھنگ سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ سپاہی عمر دراز شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج نے حملے کا بھرپور جواب دیکر شرپسندوں کو پسپا کیا جبکہ وزارت خارجہ نے اس واقعے پر متعلقہ افغان حکام کو اپنا احتجاج ریکارڈ کراکر ایسے واقعات اور حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سرحد پار سے اب تک سینکڑوں بار پاکستان کے سرحدی علاقوں اور چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ باڑ لگانے کا 80 فیصد کام مکمل کیاجاچکا ہے جبکہ درجنوں چیک پوسٹیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ایک معتبر رپورٹ کے مطابق افغانستان کی سرزمین سے سال 2007 کے بعد اب تک 200 سے زائد حملے کئے جاچکے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں 31 افسران سمیت 230 سپاہی شہید کئے جاچکے ہیں۔ جن علاقوں میں سرحد پار سے حملے کرائے گئے ہیں ان میں شمالی اور جنوبی وزیرستان، چمن، باجوڑ، خیبر اور کرم سرفہرست ہیں۔ یہ حملے نہ صرف یہ کہ فورسز اور ان کی چیک پوسٹوں پر کرائے جاتے ہیں بلکہ درجنوں بار سویلین کو بھی نشانہ بنایاگیا۔ اگرچہ یہ سلسلہ 2007 سے تواتر کے ساتھ جاری ہے تاہم سال 2013ء کے بعد اس میں اضافہ ہوا۔ یہ وہی سال ہے جب ستمبر میں باجوڑ کے نواحی علاقے میں ایک کانوائے پر حملہ کرکے میجر جنرل ثناء اللہ اور لیفٹننٹ کرنل توصیف کو ساتھیوں سمیت شہید کیاگیا۔ بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید کے مطابق 2013 کے مذکورہ واقعے کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقوں پر اس نوعیت کے 20 حملے کرائے گئے جس کے نتیجے میں 236 سپاہی شہید ہوئے جبکہ70 سویلین بھی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اکثر حملے ان اہلکاروں پر کرائے گئے جو کہ بارڈر کی فنسنگ کاکام کرتے آرہے ہیں اور حملوں کے دوران ان کیلئے سپورٹنگ ٹروپس طلب کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ رپورٹس کے مطابق متعدد بار افغانستان کی بارڈر فورسز نے براہ راست حملے کئے جبکہ بعض میں وہ جنگجو ملوث رہے ہیں جو کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی کی سرپرستی اور فنڈنگ سے سرحدی علاقوں میں قیام پذیر ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک جاری کردہ رپورٹ میں چند ماہ قبل کہاگیا ہے کہ افغانستان میں پانچ سے چھ ہزار تک جنگجو و رہائش پذیر ہیں جنہوں نے ماضی میں پاکستان کے سرحدی علاقوں کے علاوہ متعدد بڑے شہروں میں دہشت گرد کاروائیاں کیں اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود افغان فورسز اور حکومت ان عناصر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر پا رہی ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے حملوں میں وہ کمانڈر ملوث ہیں جو کہ فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں قبائلی علاقوں سے افغانستان چلے گئے۔کہا جا رہا ہے کہ اکثر حملے وہ جنگجو کر رہے ہیں جن کے بارے میں پاکستان کا موقف ہے کہ ان کو افغانستان کی حکومت میں شامل پاکستان مخالف حکام اور اداروں کی نہ صرف کھلی سرپرستی حاصل ہے بلکہ ان کو باقاعدہ فنڈنگ بھی کی جاتی ہے۔ پریس ٹی وی ایران کے مطابق ان لوگوں کو بعض فوجی کیمپوں کے قریب بسایاگیا ہے اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں افغان طالبان کا عمل دخل عملاً نہ ہونے کے برابر ہے۔ مذکورہ ٹی وی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ان حملوں کا مقصد جہاں باڑ لگانے کے عمل کو ناکام بنانا ہے وہاں اس کے ذریعے پاک افغان تعلقات میں تلخی اور کشیدگی کا راستہ بھی ہموار کرنا ہے۔ دوسری طرف سال 2013ء کے بعد افغانستان کی پولیس اور دوسری پیرا ملٹری فورسز نے چمن اور دو تین دیگر سرحدی علاقوں میں پاکستانی آبادی اور فورسز پر درجنوں بار براہ راست حملے کئے جس کے نتیجے میں درجنوں افراد لقمہ اجل بنے مگر پاکستان نے خلاف توقع ایسا کوئی ردعمل نہیں دکھایا جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو۔افغانستان سے کراس بارڈر ٹیررازم کے اسباب اور عوامل جو بھی ہو یہ بات کافی پریشان کن ہیں کہ افغان حکومت حالیہ صورتحال کے نتیجے میں دن بدن جتنی کمزور ہوتی جا رہی ہے اس میں شامل بعض عناصر حسب سابق اس کا نزلہ پاکستان پر اتار کر اپنی ناکامیوں کو اس کی آڑ میں پاکستان پر ڈالنے میں مصروف ہیں۔ بہرحال افغان حکومت کے ذمہ دار حلقوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جو کہ پاک افغان تعلقات خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔