ٹیکس کٹوتی۔۔۔ایک اور پھڈا۔۔۔۔۔

کورونا وباء کے ہاتھوں تعلیمی بدحالی اور ناگفتہ بہہ حالت کے ازالے کا کوئی حکومتی ذریعہ سامنے موجود نہ ہونے جیسی کسمپرسی کی حالت کا تقاضا تو یہ تھا کہ جامعات بالخصوص خیبرپختونخوا کی پرانی یونیورسٹوں جن میں جامعہ پشاور سرفہرست یعنی مادر علمی کی حیثیت کی حامل ہے کہ انتظامیہ اور فیکلٹی اور نان ٹیچنگ سپورٹنگ سٹاف ایکا کی حالت میں ہوں اور درپیش نامساعد حالات کا مل کر مقابلہ کریں مگر المیہ دیکھئے کہ آپس کی دوری‘ کھینچا تانی اور انانیت کی روش نے الجھاؤ کی فضا قائم کر دی ہے ایسے میں یہ امر مجھ جیسے آدمی کیلئے جو پیسے کے لین دین سے کوئی زیادہ واقفیت نہیں رکھتا ہو ایک انکشاف سے کم نہیں کہ پیسے اکٹھے کرنے والی سرکاری مشینری یعنی ایف بی آر یا فیڈرل بیورو آف ریونیو کے بغیر پوچھے بغیر کسی اطلاع کے پشاور یونیورسٹی کے اکاؤنٹنٹ سے ٹیکس کی مد میں ایک کروڑ 44لاکھ روپے اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے ہیں اور ساتھ ہی33 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا ہے یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ بھاری رقم کی وصولی کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ غالباً سال2015 سے کئی سال کے دوران جو اساتذہ فیکلٹی ڈین اور شعبہ جاتی چیئرمین رہے ہیں یونیورسٹی انتظامیہ نے ان سے ایڈمنسٹریٹیو ریٹ کے مطابق ٹیکس کٹوتی نہیں کی ہے اس لئے واجب الادا رقم یونیورسٹی سے وصول کی گئی اور عدم وصولی کی غلطی کی سزا کے طور پر جرمانہ عائد کیاگیا جامعہ کی مجاز اتھارٹی کے مطابق ایف بی آر نے جو وصولی یونیورسٹی سے کی ہے وہ33 اساتذہ کے ذمے واجب الادا ہے جو کہ ڈین اور چیئرمین رہے ہیں لہٰذا ان سے وصولی یونیورسٹی انتظامیہ کا قانونی حق ہے اور آئندہ بھی ٹیکس وصولی ایف بی آر کے بتائے ہوئے حساب کے مطابق یعنی ایڈمنسٹریٹیو ریٹ کے تحت ہوگی مجاز اتھارٹی نے یہ بات بھی دو ٹوک انداز میں کہی ہے کہ جو اساتذہ حکومتی حساب یا ریٹ کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی کیلئے تیار نہیں بے شک وہ ڈین اور شعبہ جاتی سربراہ یعنی چیئرمین شپ ہی سے دور رہیں مجاز اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی حکومتی احکامات کی پاسداری کی پابند ہے یعنی ٹیکس کا نفاذ اور اس کی وصولی حکومت کا کام ہے لہٰذا اساتذہ ٹیکس کٹوتی کے مسئلے کیلئے سیخ پا اور اپنی انتظامیہ سے مشت وگریبان ہونے کی بجائے اپنا مسئلہ حکومت کیساتھ اٹھائیں اور ایف بی آر سے استثنیٰ کا کلین چٹ لیکر لے آئیں بلکہ زیادہ بہتر ہوگا کہ ان کے کھاتے میں یونیورسٹی سے جو وصولی کی گئی ہے اسے بھی ری فنڈ کرلیں تو مسئلہ ہی حل ہو جائیگا مگر دوسری جانب یونیورسٹی اساتذہ اور انکے نمائندے انتظامیہ کے اس موقف کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ احتجاج پر اتر آئے ہیں پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن(پیوٹا) نے اس مسئلے پر جو  ہنگامی ایگزیکٹیو بیٹھک کی ہے اسکے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ڈین شپ اور چیئرمین شپ انتظامی یا ایڈمنسٹریٹیو پوسٹیں نہیں بلکہ یہ تو اکیڈمک امور نمٹانے کا کام ہوتا ہے لہٰذا ایڈمنسٹریٹیو ریٹ کے مطابق ان سے ٹیکس کٹوتی نہیں کی جا سکتی ان کا موقف ہے کہ ڈین اور چیئرمین کو تو اضافی ذمہ داریاں انجام دینے کے عوض محض دو تین ہزار روپے الاؤنس   ملتا ہے تو ٹیکس دینے کا کیا جواز بنتا ہے؟ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کا کام ہے کہ ایف بی آر کیساتھ یہ بات کلیئر اور طے کرلے کہ یونیورسٹی میں فیکلٹی کے ڈین اور تدریسی شعبہ کے سربراہ یعنی چیئرمین ایڈمنسٹریٹیو افسر ہرگز نہیں ہوتے بلکہ محض تدریسی امور نمٹانے کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں اور ساتھ ہی ٹیچنگ اور ریسرچ سے بھی منسلک ہوتے ہیں اس موقع پر مجھے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ماضی کے روح رواں ڈین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز یادآگئے جنہوں نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں قائمقام وائس چانسلر کی حیثیت سے فرائض کی انجام دہی کے دوران وہاں کے ایڈمنسٹریٹیو افسران کو نہایت موزوں نام یعنی اکیڈمک منیجر اور سینی ٹیشن سٹاف کو عملہ نظافت کا نام دیا تھا جو کہ ابھی تک برقرار ہے جہاں تک یونیورسٹی اساتذہ سے ٹیکس کٹوتی کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے اساتذہ کو25 فیصد چھوٹ حاصل ہے اور یہ بھی کہ ڈین اور چیئرمین استاد ہوتے ہیں افسر نہیں ہوتے مگر اب  ایف بی آر کو یہ باور کون کرائے گا؟ میرے خیال میں یہ انتظامیہ اور فیکلٹی دونوں کی ذمہ داری ہے۔