یادجودرد بن کر ہمسفر رہے گی۔۔۔۔۔

کورونا وباء کے ہاتھوں محض تعلیم اور محنت یا محنت کش کی بربادی سے ہم جیسے لوگ دکھی نہیں  رہے بلکہ گزشتہ ایک سال کے دوران جتنے بڑے لوگ ہم سے بچھڑ گئے ان کی یاد اور ان کی جدائی کا درد ہمیشہ ساتھ رہے گا زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر فرحت اللہ جیسے لوگ جو22 گریڈ کے میریٹوریس پروفیسر کے رتبے پر فائز ہونے کے باوجود ملنساری میں اپنی مثال آپ تھے ان کی شریک حیات جوکہ ایک ادبی شخصیت اور بہترین افسانہ نگار کیساتھ ساتھ کلیدی عہدے پر بھی فائز رہیں پروفیسر فرحت اللہ کی اہلیہ کا تذکرہ اس لئے کیا کہ90کی دہائی میں جب راقم پشتو اخبار وحدت میں معاون ایڈیٹر اور ادبی صفحے کا انچارج تھا تو مسز فرحت آئی بی پشاور کے دفتر میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور افغان ڈیسک کی انچارج تھیں ان کی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں زرعی یونیورسٹی کے ایک آفیسر ساتھی ریاض عادل نے ایس ایم ایس کرکے اطلاع دی کہ مسز پروفیسر فرحت اللہ انتقال کرگئیں اور نماز جنازہ آج جمعہ کو 1بجے زرعی یونیورسٹی میں ادا ہوگی نماز جنازہ کے بعد میں پروفیسر فرحت اللہ کو ڈھونڈ رہاتھا کہ کسی نے بتایا کہ وہ تو گزشتہ ایک مہینے سے کمپلیکس ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر ہیں اور پھر وہی ہوا جو ہمارے لئے نہ بھولنے والی یاد اور کم نہ ہونے والے درد کا باعث بنا۔مسز فرحت اللہ کی قل کے روز یعنی اتوار کو وہ نہایت ملنسار‘ لائق اور کہنہ مشق معلم بھی ہم سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے اس سے قبل اسلامیہ کالج کے ہمارے ساتھی نہایت محنتی سپورٹس مین اور ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن عرفان اللہ کامران مروت کی کورونا کے ہاتھوں رحلت نے ہمارے دکھوں میں اضافہ کیا تھا اسی طرح اسلامیہ کالج کے ڈین علوم اسلامیہ پروفیسر ڈاکٹر نصیب دار محمد ہمارے ادیب دوست پروفیسر ہمایون ہمدرد اور بلا کے مزاح نگار محقق اور شاعر مشتاق مجروح یوسفزئی اور اسلامیہ کالج کے حال ہی میں وائس چانسلر رہنے والے اور جنیٹکس کے ممتاز پروفیسر حبیب احمد کی جدائی کے زخم ابھی تازہ تھے کہ ہمارے دیرینہ ساتھی اور ادبی مشر سلیم راز نے بھی ہمیں چھوڑ دیا سلیم راز کا کیا کہئے وہ تو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے شاعر ادیب‘ محقق‘ منتظم‘ مصنف اور صحافی کی حیثیت سے جو متحرک کردار سلیم راز نے ادا کیا وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے ہماری ادبی رفاقت طویل عرصے پر محیط تھی مجھے سال 1987ء کی وہ صبح ابھی تک یاد ہے جب میں سید میر مہدی شاہ مہدی کے زیر سایہ ان کے اردو اور پشتو مجلے قیادت میں موصوف کے نائب کے طور پر قلم کی مزدوری کر رہا تھا اور سلیم راز نے گورگٹھڑی تحصیل میں پہلی عالمی تین روزہ پشتو کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس کا افتتاح پشتونوں کے بابا فخر افغان باچا خان اور بابائے پشتو غزل اور بیسویں صدی کے نابغہ ادبی شخصیت امیر حمزہ خان شنواری نے کیا تھا کانفرنس کے پہلے روز طاہر آفریدی،  پرویش شاہین اور اشرف غمگین سمیت کئی شعراء ادباء چوک یادگار کے ایک ہوٹل میں قہوہ پی کر روانہ ہوئے تھے بعدازاں سال2000ء میں پختانہ لیکوال پختونخوا کے پلیٹ فارم سے سلیم راز کی قیادت میں تین روزہ عالمی کانفرنس پشاور کے نشتر ہال میں منعقد ہوئی جس کے لئے سلیم راز اور صوبہ بھر کے تمام چیدہ چیدہ شعراء نے جو کوششیں کیں وہ ریکارڈ پر موجود ہیں دوسری عالمی کانفرنس میں راقم نے پختانہ لیکوال کے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے نشتر و اشاعت کی ذمہ داریاں انجام دی تھیں اور کانفرنس میں امریکہ اور یورپ سمیت مختلف ممالک سے پشتو شعراء ادباء نے حصہ لیا تھا سلیم راز سے میرا تعلق اور رفاقت باہمی احترام اور نظریاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر عرصہ تیس سال سے قائم رہا علالت کے دوران مرحوم کے صاحبزادوں ارشد اور وسیم سے برابر رابطے میں رہا ابھی 13مئی کو عیدالفطر کے دن جب میں اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی سے فارغ ہوا تو وسیم نے فون کرکے بتایا کہ راز صاحب کو وینٹی لیٹر سے بیڈ پر منتقل کردیاگیا ہے تو میں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ امید باندھ لی کہ اب سلیم راز سے ملنے اور ان کی بالمشافہ عیادت ممکن ہو جائے گی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا ظالم کورونا نے ہمیں یہ موقع ہی نہیں دیا بدھ 19مئی کو جب میں ان کے گاؤں سکڑ دوآبہ میں سلیم راز کی قبر پر فاتحہ کیلئے کھڑا ہوگیا تو ان سے طویل رفاقت کی یاد تصویریں بن کر میرے ذہن کی سکرین پر آتی گئیں کورونا کے ہاتھوں تعلیمی بربادی اور غریب محنت کش طبقے کی حالت زار ایک جانب مگر وباء نے پشتو ادب کو جس ناقابل تلافی ضیاع سے دوچار کیا اس کا ازالہ بھی شاید ممکن نہ ہو اسلامیہ کالج اور بعدازاں خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر حافظ محمد الیاس تھے سوات کے محمد ابراہیم شبنم یا انجینئرنگ یونیورسٹی کے انجینئر ڈاکٹر محمد نعیم خٹک یقین کرلیں کہ یہ ایسے لوگ تھے کہ بھلانے کیلئے ایک طویل عمر چاہئے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری تعلیم ہمارے محنت کش اور ہمارے شعراء ادباء اور ادب کو اپنے امان میں رکھے۔