سیاسی شعور کا فقدان۔۔۔۔۔

اگر تو یہ قوم واقعی سیاسی طور پر باشعور ہو چکی ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنا اس نے سیکھ لیا ہے تو آئندہ الیکشن میں اسے ان لوگوں اور سیاسی پارٹیوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر نہیں بٹھانا چاہئے کہ جنہیں وہ ایک یا ایک سے زیادہ مرتبہ اقتدار میں لاکر آ ز ما چکی ہے۔ سیانوں نے یوں ہی تو نہیں کہا کہ آ زمودہ را آ زمودن جہل است یعنی آ زمائے کو آزمانا جہالت ہے پر حقیقی زندگی میں اس ملک میں ایساشاذ ہی ہوا ہے روپ اور بھیس بدل بدل کر کبھی ایک سیاسی پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی کے پلیٹ فارم سے وہی پرانے چہرے بار بار ایوان اقتدار میں براجمان ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔کوئی بھی لیڈر اگر یہ دعوی کرے کہ وہ یا اس کی پارٹی اقتدار میں آ کر صحیح معنوں میں ملک میں جمہوریت رائج کرے گی تو پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی پارٹی کے اندر کیا جمہوریت کو لاگو کیا ہے کیا اس کی پارٹی میں ایک مقررہ عرصے کے بعد انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں۔کیا اس پارٹی کا قائد اپنی پارٹی کے اندر اہم انتظامی مناصب پر انٹرا پارٹی الیکشن کرواتا ہے یا پھر اوپر سے اپنے رشتہ داروں یا خاندان کے افراد کو نامزد کرنے کے بعد ان کو منتخب کروا کے موروثی سیاست کو فروغ دے رہا ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔اب تک اس ملک کے عوام میں اتنا شعور ضرور ہونا چاہئے کہ وہ اچھے برے میں تمیز کر سکیں اگر اب بھی وہ اپنے سر پر انہی پرانے لوگوں کو مسلط کریں گے کہ جو ماضی میں جونک کی طرح ان کے جسم کا خون چوستے رہے ہیں تو پھر ان کا خدا ہی حافظ۔جہاں تک حال ہی میں ریلوے حادثے اور اس کے بعد رد عمل کا تعلق ہے تو کبھی کبھی تو یہ خیال آتا ہے کہ اگر ہمارے صدور‘ وزرائے اعظم‘ وزرائے اعلی‘ گورنر اور دیگر وزراء نے یہ رسم ڈالی ہوتی کہ وہ ملک کے اندر اپنے دورے ریلوے کے سفر سے کرتے تو شاید اس کی وجہ سے ریلوے کے حکام زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرتے اور احتیاط کی وجہ سے حفاظتی معاملات بہترہوتے اور ریلوے حادثات اتنے نہ ہوتے کہ جتنے ہو رہے ہیں پر ہمارے سیاسی لیڈروں نے تو چارٹرڈ طیاروں میں ملک کے اندر سفر کرنے کی ریت ڈال دی ہے۔ اگلے روز اخبار میں یہ خبر پڑھ کے حیرت ہوئی کہ ہمارے بعض سیاسی رہنما کراچی سے لے کے پشاور تک کا سفر چارٹرڈ طیاروں میں کرتے ہیں اب اس قسم کے لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ وہ غریب عوام کی حالت زار کا ذکر کس منہ سے کرتے ہیں جن کا اپنا طرز زندگی بودوباش اور رہن سہن کا طریقہ بادشاہوں جیسا ہے وہ بھلا مفلوق الحال پاکستانیوں کے غموں اور دکھوں کو کس طرح طرح جان سکتے ہیں۔اگلے روز برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کی شادی کی تقریب کے فوٹو دیکھ کر ہم اس بات ہر حیران ہوئے کہ انہوں نے کس سادگی کے ساتھ اپنی شادی کی رسم ادا کی دلہن کیلئے جو شادی کا جوڑا استعمال کیا گیا وہ بھی کرائے پر لایا گیا جوڑا تھا اس شادی کا اہتمام ہماری اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی شاہانہ تقریبات پر سوالیہ نشان ہے۔