سیاسی جماعتوں کا ہدف، آئندہ انتخابات۔۔۔۔

لگ یہ رہا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی ای فضل الرحمان گروپ کے بعض اہم زعما اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے درمیان ایک عرصے سے جو چپقلش چل رہی ہے وہ ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد صاحب کے بیانات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس پارٹی کے بلوچستان ونگ میں ابھی تک شدید اختلافات موجود ہیں اور اگر انہیں رفع دفع نہ کیا گیا تو آئندہ الیکشن میں ان کی وجہ سے سے اس پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نواز لیگ کے اندر بظاہر تو اختلافات نظر آرہے ہیں پر ان کے بارے میں سیاسی مبصرین کی دو آ راء ہیں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف آپس میں یک جان دو قالب ہیں اور چھوٹے بھائی بڑے بھائی کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے جب کہ اس کے علی الرغم کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں ان کی نئی نسلوں کی سیاسی سوچ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے جس کے اثرات مستقبل میں پارٹی پر مرتب ہو سکتے ہیں۔اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے جو حالات ہیں ہیں ان کے پیش نظر مستقبل قریب میں عام انتخابات کرانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا دوسری طرف موجودہ حکمران پارٹی کی اقتدار میں آئینی مدت ختم ہونے کو اب کوئی زیادہ وقت نہیں 2023 کو تو آپ شامل ہی نہ کریں کہ وہ الیکشن کا سال ہوگا لے دے کے حکومت وقت کے پاس صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ رہ گیا ہے یعنی موجودہ سال کے چھ مہینے اور اور اگلا پورا سال اس حقیقت کا اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ادراک ہے اور لگ یہ رہا ہے اب انھوں نے اس سوچ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے کہ اس کی بجائے کہ حکومت کو کسی بھی طریقے سے فوری طور پر چلتا کیا جائے بہتر یہ ہو گا کہ باقی ماندہ عرصے میں اس پر مختلف زاویوں سے سیاسی پریشر رکھا جائے اور اور ساتھ ہی ساتھ اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں نئے عام انتخابات کیلئے نئی صف بندیاں کی جائیں یہ بھی ممکن ہے کہ 2023 کے الیکشن میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں آپس میں ایک گروپ بنا لیں اور اسی طرح ان کے مد مقابل دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی اپنا ایک سیاسی اتحاد بنا سکتی ہیں۔اس طرح دیکھاجائے تو اب سیاسی منظر نامہ آنیو الے انتخابات کے ساتھ جڑ گیا ہے اور اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو لائحہ طے کرنے چاہئے اور لگ بھی یہی رہا ہے کہ اپوزیشن کی بھی اب حکومت کو رخصت کرنے کا ایجنڈا نہیں رہا اور وہ بھی جو سیاسی گرما گرمی کا ماحول بنائے ہوئی ہے تو وہ اگلے انتخابات کیلئے ہی ہے۔اس دوران ان کی کوشش ہوگی کہ حکومت کو غیر مقبول بنایا جائے اور اپوزیشن کو عوام میں مقبولیت دی جائے تاکہ حکومت کا پھانسہ ووٹوں کے ذریعے پلٹا جائے جبکہ حکومت نے بھی عوامی تائید حاصل کرنے کی بھر پور کوششیں جاری رکھی ہیں اور حالیہ بجٹ سمیت کئی اقدامات اس کی عکاسی کر رہے ہیں۔