کورونا کی تعلیم دشمنی۔۔۔۔۔

 میرے نزدیک تو کورونا آنے کے بعد پاکستان کو دو طرح سے پسماندہ رکھنے کیلئے کسی دوسرے دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ اس حقیقت کو تو تمام تر اہل علم و دانش اور مفکرین عالم نے تسلیم کرلیا ہے کہ دشمن کو نیچا دکھانے‘ پسماندہ اور غلام رکھنے کے جتن میں اسی پر آب و دانہ کی بندش‘سازش یا پھر حملہ آور ہونے جیسی کوششوں کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ آسان دیرپا اور نتیجہ خیز طریقہ بروئے کار لاکر اس قوم کے بچوں کے ہاتھ سے کتاب و قلم چھین لے۔ پھر دیکھنا کہ وہ کس طرح عمر بھر کیلئے ذہنی‘ معاشی اور سیاسی طورپر غلام اور پسماندہ بن جاتی ہے یہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے کورونا کے ہاتھوں معیشت برباد ہوگئی غریب‘ محنت کش غربت کی لکیر سے مزید نیچے آگئے اور تعلیم کا بوریا بستر گول ہوگیا‘ دراصل ہمارے پالیسی ساز اور صاحب اختیار اس حقیقت کو سمجھنے سے غالباً قاصر ہیں کہ دنیا کے انتظام و انصرام کا دارومدار اور انحصار صرف دو چیزوں پر ہے یعنی تعلیم اور محنت مگر صد افسوس کہ کورونا کے دوران یہ دونوں زندہ درگور ہوگئیں اور صاحب اقتدار دیکھتے رہے یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ کورونا سے کسی بھی سرمایہ دار‘ کارخانہ دار اور صاحب اقتدار کی صحت  پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ کورونا کا تمام نزلہ محض غریب مزدور کار اور تعلیم پر آگرا دوسرے ممالک نے تو اپنے دوسرے اخراجات‘ بالخصوص غیر ترقیاتی یعنی پروٹوکول اخراجات کو کاٹ کر معقول مالی پیکیج دے کر تعلیم کو کافی حد تک تباہی سے بچا لیا مگر ہمارے ہاں کئی طرح کے پیکیچز آئے مگر تعلیم تک نہیں پہنچے دراصل تین بنیادی چیزیں یا ضروریات ہیں جس کے بغیر عام آدمی کا گزر بسر تقریباً ناممکن ہوتا ہے لیکن خوش قسمتی دیکھئے کہ وہ تینوں چیزیں یعنی تعلیم صحت اور روزگار اس ملک کے ایک فیصد بالادست طبقے کے مسائل ہیں ہی نہیں یہی وجہ تھی کہ کورونا وباء نے صرف غریب اور تعلیم کو بربادی سے دوچار کردیا اور نہ جانے مزید کیا کچھ کرکے دم لے گی کیونکہ تعلیمی بندش کے تو اور بھی کئی مرحلے باقی ہیں اب اگر کوئی آنکھیں بند کرکے اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے سب اچھا‘ سمجھ کر بلکہ قرار دیکر خاموشی اختیار کرلے لیکن جب ضمیر زندہ ہو اور احساس خوابیدہ نہ ہو تو ایسے میں کیا چارہ ہوگا؟ اب جب کسی کا ضمیر یہ سوال کر بیٹھے کہ جب ملک کے پورے نظام اقتدار کو احتیاطی تدابیر کی بدولت دوام دیا جا سکتا ہے تو آیا تعلیم اس طریق پر جاری نہیں رکھی جا سکتی؟ اس کا جواب تو صاحب اقتدار طبقے کے ہاں اگر ہو بھی تو عین ممکن ہے کہ نہیں دینگے البتہ ایک ذمہ دار‘ حساس اور محب الوطن پاکستانی اگر اس بابت کچھ کہے تو یہی کہے گا کہ کیوں نہیں رکھی جا سکتی مگر تب جب یہ سرمایہ دار اور صاحب اختیار طبقے کا مسئلہ تو ہو‘ ہماری تعلیم کو کورونا سے کوئی گلہ شکوہ نہیں‘ البتہ اپنے برسراقتدار طبقے سے یہ گلہ شکوہ ضرور ہے کہ انہوں نے مجھے کورونا کے سامنے بے یارومددگار چھوڑ کر اس ملک کے بچوں اور نوجوان نسل پر ظلم کیا سچ تو یہ ہے کہ جن احتیاطی تدابیر کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے حکومت ٹھکتی نہیں صرف بیرونی امداد کا کچھ حصہ مختص کرکے اپنی احتیاطی تدابیر پر مکمل بلکہ بائی فورس عمل درآمد کی بدولت تعلیم تباہی سے بچ سکتی تھی مگر کیا کریں کہ حکومت نے اسے ضروری ہی نہیں سمجھا اب سوچنے والے کے ذہن میں اس سوال کا ابھرنا ایک فطری امر ہوگا کہ تعلیم کو وباء کے ہاتھوں تباہی سے نہ بچانے میں کیا حکمت تھی؟ کورونا کے ہاتھوں جامعات کی مالی بدحالی اپنی جگہ ایک واضح اور بڑی حقیقت ہے پشاور کی سرکاری جامعات کے اساتذہ نے اپنے حالیہ طویل احتجاج کے دوران وزیراعظم سے تعلیم کیلئے150 ارب مختص کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر شومئی قسمت کہ اعلیٰ تعلیمی بجٹ میں محض2ارب کا اضافہ ہوا اور یوں 64 ارب سے 66ارب ہوگیا۔