پاکستان، بھارت، افغانستان، چین، ایران اور روس پر مشتمل خطے میں متعدد بڑے خطرات اور خدشات کے ساتھ ساتھ بہت سے امکانات بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین آئندہ چند برسوں کو اس خطے کیلئے بہت اہم بلکہ فیصلہ کن قراردے رہے ہیں۔ اس خطے میں اگر دنیا کی سب سے بڑی آبادی رہائش پذیر ہے اور چار ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں تو قدرت نے اس علاقے کو بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے بھی نوازا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سال 2022تک بعض علاقائی تنازعات کا غیر متوقع حل نکل آئے گا تاہم بعض حلقوں کی رائے ہے کہ ایسا ہونے سے قبل بھارت اور چین، بھارت پاکستان کے درمیان محدود جنگوں کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ تاکہ نئی جغرافیائی الائمنٹ کا راستہ ہموار ہو سکے۔ دوسری طرف امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں نوے کی دہائی کی طرح پھر سے خانہ جنگی اور بڑی تبدیلیوں کے یقینی خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ ان تبدیلیوں میں مقبول عام تجزیوں کے برعکس افغانستان کی لسانی اور جغرافیائی تقسیم کے ایک عالمی ایجنڈے کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کیونکہ برطانایہ اور روس کے ناکام تجربات کے بعد اب بیس سال تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی لاکھوں فوجیں اور تقریباً 8ٹریلین ڈالر کی مجموعی لاگت بھی اگر اس ملک میں امن و سیاسی استحکام نہ لاسکیں تو سینٹرل ایشیاء کے گیٹ وے پر موجود اس ملک پر اب نئے مگر تیز ترین تجربات کئے جائیں گے۔ ان تجربات میں ایک فارمولا امریکہ اور برطانیہ کے پاس ہے جبکہ دوسرا چین، روس، پاکستان اور ایران کے پاس ہے۔ چین نے ہر قیمت پر سنٹرل ایشین ریاستوں اور اس کے بعد مشرقی یورپ کی مارکیٹوں تک جانا ہے۔جبکہ اس پراجیکٹ میں پاکستان اس کا پارٹنر ہے۔ دوسری طرف بعض سنٹرل ایشین ریاستیں روس اور ایران بھی ایک اہم فارمولے اور آپشن پر غو ر کررہے ہیں۔ کسی نہ کسی سطح پراس فارمولے میں بھی پاکستان کا کردارممکن ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ کے مجوزہ فارمولے میں پاکستان کا اہم کردار پہلے سے ہی طے شدہ ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے بعض علاقوں میں امریکی اور چینی سرویز کے مطابق 10ٹریلین ڈالر کے معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل موجود ہیں جبکہ یہ علاقے ساؤتھ اور سنٹرل ایشیاء کو ملانے کیلئے بھی پل کاکردار ادا کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں عالمی اور علاقائی طاقتیں اس پٹی سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں اور بفر زون کے بعد ان علاقوں کو وارزون بنانے کے پیچھے چند دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ ان لامحدود وسائل اور معدنیات کابڑا ہاتھ ہے۔ ان وسائل پر قبضہ کرنے یا شیئر حاصل کرنے کیلئے خطے میں پراکیسز اور انٹلیجنس کے علاوہ محدود جنگوں کی نہ صرف پیش گوئیاں ہو رہی ہیں بلکہ بعض دارلحکومتوں میں ان جنگوں کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ افغانستان کے حالات بگڑنے کی بجائے بگاڑے گئے اور افغان سیاستدانوں، حکمرانوں نے ممکنہ خطرات کا بروقت ادراک نہیں کیا۔ جسکے مستقبل قریب میں ان کے اندازوں کے برعکس ناقابل تصور حد تک خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ روس اور چین کو خطے میں اگر ایک طرف انتہاپسندوں اور طالبان سے خطرہ ہے تو دوسری طرف امریکہ کی محدود موجودگی اور غیر ضروری مداخلت سے بھی پریشان ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ دو ممالک پاکستان کے ساتھ مل کر افغان مسئلے کا حل نکالنے میدان میں اتر آئے ہیں مگر بات نہیں بنی۔ اسی طرح پاکستان بدلتے حالات کے تناظر میں عالمی برادری اور اتحادیوں کے تعاون سے بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کررہاہے جبکہ بھارت میں بھی مذاکرات اور کشیدگی ختم کرنے کے حق میں نہ صرف موثر آوازیں اٹھی دکھائی دے رہی ہیں بلکہ چین کی اقتصادی ترقی کا راستہ روکنے اور بھارت کے عام لوگوں کو مسائل سے نکالنے کیلئے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کو نا گزیر قرا ر دیا جارہا ہے۔ عالمی کوششوں کے ساتھ ساتھ عوامی دباؤ بھی خطے کی سیاست اور ریاستوں پر بڑھتا جارہا ہے۔ تاہم یہاں بھی محدود جنگوں کو مسائل کا ایک مجوزہ حل سمجھا جار ہا ہے۔ اس تمام صورتحال نے نتائج اور ممکنہ ثمرات کو کافی پیچیدہ اور کسی حد تک ناقابل یقین اور ناقابل وضاحت بنا کر رکھ دیا ہے۔ تاہم اس دو آراء ہیں ہی نہیں کہ 21ویں صدی کی بعض بنیادی ضروریات، مجبوریوں اور تقاضوں کے باعث یہ تمام آپشنز اور امکانات نہ صرف موجود اور زیر غور ہیں بلکہ ان پر اندرون خانہ کام بھی ہورہا ہے۔ اس خطے کے حالات کے ساتھ دنیا کی سیاست اور معیشت دونوں جڑی ہوئی ہیں۔ اس لئے عالمی طاقتیں اب نئے فارمولوں پر کام کر رہی ہیں اور ان فارمولوں میں جنگ برائے امن کا ایک نسخہ سر فہرست ہے کیونکہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ناکام تجربے نے جہاں ان ممالک کی ساکھ کو متاثر کیا ہے وہاں انکے مفادات اور ایشیائی طاقتوں کی نئی صف بندی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس تناظر میں لمبی بحث کئے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند مہینے اور سال بہت اہم اور پر خطر ہیں۔ ایسے میں ہر ریاست کی قیادت کی بصیرت اور بصارت دونوں کا کڑا امتحان ہوگا۔ کیونکہ امریکی تجربے سے ایک بات تو بالکل واضح ہوگئی ہے کہ طاقت اور بے پناہ وسائل جاری مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس صورتحال میں بہترین آپشن ایران،پاکستان، افغانستان، روس اور چین پر مشتمل ایک مضبوط علاقائی اتحاد یا بلاک کا قیام ہے تاہم اس کیلئے عملی کوششیں بر سرزمین نظر نہیں آتیں۔