ایسا مانا جاتا ہے کہ بالوں کی سفیدی اور ذہنی تناؤ کے درمیان تعلق موجود ہے اور اب طبی سائنس نے بھی ایسے شواہد دریافت کیے ہیں جو اس خیال کو درست ثابت کرتے ہیں۔
درحقیت بالوں کی جڑوں سے جو بال نکلتے ہیں ان کی رنگت تو تبدیل نہیں ہوتی مگر ذہنی تناؤ اور دباؤ کا سامنا کرنے والے افراد میں بال بتدریج سفید ہونے لگتے ہیں۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گی۔
کولمبیا یونیورسٹی کے ویجیلوس کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کی تحقیق میں پہلی بار ایسے شواہد فراہم کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ ذہنی تناؤ اور بالوں کی سفیدی کے درمیان تعلق موجود ہے۔
اس سے دہائیوں ہرانے قیاس کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ تناؤ سے بالوں کی رنگت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ میکنزمز کو سمجھنے سے 'پرانے' سفید بالوں کو 'جوان' حالت میں واپس لانا ممکن ہوسکے گا۔
اگرچہ لوگوں کا پہلے سے ماننا ہے کہ ذہنی تناؤ سے بالوں کی سفیدی کا عمل تیز ہوجاتا ہے مگر سائنسدانوں میں اس تعلق کے حوالے سے بحث دہائیوں سے ہورہی ہے، کیونکہ اس طریقہ کار کے بارے میں علم نہیں جو بالوں کی رنگت میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔
اس کو سمجھنے کے لیے محققین نے 14 رضاکاروں کے بالوں کے تجزیہ کیا اور ان کے نتائج کا موازنہ ہر رضاکار کی تناؤ سے متعلق ڈائری سے کیا گیا جو انہیں لکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔
محققین نے فوری طور پر محسوس کیا کہ کچھ سفید بال کی رنگت دوبارہ قدرتی رنگت سے بدل گئی، جسے پہلے کسی تحقیق میں دریافت نہیں کیا گیا تھا۔
جب بالوں کو ڈائریز سے ملا کر دیکھا گیا تو محققین نے تناؤ اور بالوں کی سفیدی کے درمیان نمایاں تعلق کو دریافت کیا، جبکہ کچھ کیسز میں تناؤ سے نجات پر بالوں کی قدرتی رنگت پر واپسی کو بھی دیکھا گیا۔
محققین نے بتایا کہ جب ایک فرد جو تعطیلات پپر گیا تھا، تو وہاں اس کے 5 بال پھر سیاہ ہوگئے۔
بالوں کی رنگت جب بدلتی ہے تو 300 پروٹینز میں تبدیلیاں آتی ہیں اور محققین نے ایسا ریاضیاتی ماڈل تیار کیا تھا جو تناؤ سے متعلق مائی ٹو کانڈریا ڈی این اے تبدیلیوں سے آگاہ کرکے وضاحت کرسکے کہ تناؤ کس طرح بالوں کو سفید کرتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہم اکثر سنتے ہیں کہ مائی ٹو کانڈریا خلیات کے پاور ہاؤسز ہوتے ہیں مگر یہ ان کا واحد کردار نہیں، بلکہ یہ درحقیقت خلیات کے اندر انٹینا کی طرح ہوتے ہیں جو مختلف طرح کے سگنلز بشمول ذہنی تناؤ پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
محقین نے کہا کہ ہمارے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ بالوں کی سفیدی کو لوگوں میں ریورس کیا جاسکتا ہے تاہم اس کا میکنزم مختلف ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تناؤ کی شدت میں کمی سے ضروری نہیں کہ بالوں کی قدرتی رنگت واپس لوٹ آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماڈل سے عندیہ ملتا ہے کہ بالوں کو سفید ہونے کے لیے ایک مخصوص حد تک پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے، درمیانی عمر میں یہ حد مختلف عناصر کے باعث قریب آجاتی ہے جبکہ تناؤ اس جانب سفر تیز کردیتا ہے۔
آسان الفاظ میں بال جوانی میں تناؤ کے نتیجے میں سفید ہوئے ہوں اور بہت جلد ذہنی حالت کو بہتر بنالیا جائے تو ممکن ہے کہ بالوں کی رنگت کو ریورس کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا نہیں خیال کہ تناؤ میں کمی لاکر 70 سالہ کسی فرد کے بالوں کو سیاہ کیا جاسکتا ہے جن کے بال برسوں قبل سفید ہوچکے ہیں، تاہم جوانی میں کسی حد تک ایسا ممکن ہے، مگر اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔