کورونا وائرس نے تو جیسے دنیا کی ہر شے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیاہو۔ ابھی اس کی تیسری لہر سے ہم نبردآزما ہیں اور اس کے عذاب سے باہر نہیں نکلے کہ سندیسہ آ یا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جولائی اور اگست میں اس کی چوتھی لہر بھی شاید آئے۔ عالمی ادارہ صحت تو ایک عرصے سے کہہ رہا ہے کہ اس موذی وائرس سے 2025 تک ہی شاید دنیا اپنا دامن چھڑا سکے اس جملہ معترضہ کے بعد بعد آئیے اب ذر ذکر ہو جائے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اپنے منظور نظر بعض کشمیری رہنماؤں کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بارے میں کہ جو اگلے روز منعقد ہوئی اور جس کا مقصد صرف اور صرف عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنا تھا مقبوضہ کشمیر کے بعض لیڈروں نے میر جعفروں اور میر صادقوں کی طرح کشمیری قوم کو ذاتی مفاد کیلئے تقسیم کر رکھا ہے اگر بھارتی وزیراعظم کشمیری عوام کے مسائل کے حل کیلئے واقعی سنجیدہ ہوتا تو وہ اس ملاقات میں حریت رہنماؤں کو بھی بلاتا جن لیڈروں کو اس نے اپنی منددجہ بالا ملاقات کیلئے مدعو کیا وہ تو کشمیری خون کے سوداگرہیں مودی نے مقبوضہ کشمیر میں نئے الیکشن کا عندیہ دیاہے پر سوال یہ ہے کہ مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کو یہ الیکشن کیسے قبول ہوں گے اگر ایک طرف کشمیر میں ہندو آ بادکاری جاری رہے گی اور دوسری طرف حریت رہنماؤں کو پابند سلاسل رکھا جائے گا۔ جہاں تک افغانستان کے موجودہ بحران کا تعلق ہے اس میں ہماری وزارت خارجہ کے کرتا دھرتوں کوبیان بازی میں محتاط رہنا ہوگاکہ اس سے ہماری غیر جانبداری پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ افغانستان کے ارباب اختیار و حزب اختلاف کو اچھی طرح پتہ ہے کہ کیا چیز ان کے مفاد میں ہے اور کس چیز سے ان کو نقصان مل سکتا ہے ہمیں بس اپنا بیانیہ اس بات حد تک محدود دکھنا چاہئے کہ نہ ہم اپنی سرزمین کو کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت دیں گے اور امید کرتے ہیں کہ افغانستان بھی اپنی سر زمین کو پاکستان کیخلاف استعمال ہونے سے گریز کرے گا۔ اچھا ہوا جو افعانستان اور دنیا کو یہ بات گوش گزار کرا دی گئی ہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں ہم کسی افغان مہاجر کو پاکستان میں پناہ لینے نہیں دیں گے اور اس عمل کو یقینی بنانے کیلئے ہم اپنا بارڈز سیل کر دیں گے عقلمند کیلئے اشارہ کافی ہے۔ پر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیانیہ پر سو فیصد عمل درآمد بھی ہو۔سرحد پر باڑ کے قیام کے بعد اب یہ کام آسان ہوگیا ہے کہ پاک افغان سرحد کی مؤثر نگرانی ہو اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی بھی دستیاب ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ افغانستان سے پاکستان کی طرف نقل و حرکت کو روکنے کیلئے ہمیں سیٹلائٹ سسٹم سے بھی استفادہ کرنا ہوگا اور پاک افغان بارڈر پر افواج پاکستان کو بھی گشت کرنا ہوگا تا کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کی جانب کوئی بھی نقل مکانی نہ ہو سکے۔ پوری دنیا میں ممالک کے درمیان سرحدات پر آنے جانے کا ایک منظم اور مؤثر نظام موجود ہوتا ہے جس سے نہ صرف باہمی تجارت میں آسانی رہتی ہے بلکہ امن وامان کے مسائل بھی پیدا نہیں ہوتے۔ مشرقی سرحدات پر تو اس طرح کا سسٹم موجود رہا تاہم افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر بغیر کسی روک ٹوک کے آمد ورفت کا سلسلہ سال ہا سال سے جاری رہا۔ اس سے باقاعدہ تجارت کی بجائے سمگلنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کو راستہ ملتا رہا اور 80 کی دہائی میں افغان بحران کے بعد یہاں پر دیگر مسائل نے بھی سر اٹھانا شروع کیا جس میں تخریب کاروں کا پاکستان میں داخل ہونا اور تخریبی کاروائیوں کے بعد واپس افغانستان فرار ہونا شامل ہے۔ موجودہ حالات میں ایک بار پھر پاک افغان سرحد پر بھرپور توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء یقینا دور رس اثرات کا حامل ہے اس لئے اس اہم موقع پر ہر حوالے سے محتاط ہونا پڑے گا اور بحیثیت قوم ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔