عالمی سیاست پر ایک نظر۔۔۔۔

آج کل چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنی سو سالہ سالگرہ کی تقریبات منا رہی ہے اس موقعہ پر روس اور چینی قیادت نے آپس میں ایک دوسرے کیلئے محبت اور خیر سگالی کے جن جذبات کا اپنے پیغامات میں تبادلہ کیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ آج یہ دو سپر پاورز کس قدر قریب آ کر یک جان دو قالب بن چکی ہیں البتہ ان کی یہ قربت امریکہ کی انکھوں میں بری طرح کھٹک رہی ہے بلا شبہ دنیا کی سیاست ایک نیا موڑ اختیار کر چکی ہے چین اور روس میں آج کل جو ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے اس کی مثال گزشتہ 70 برسوں میں نہیں ملتی دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا ایک لمبے عرصے تک دو بلاکس میں بٹی رہی ایک سویت یونین کا بلاک تھا اور دوسرا امریکہ کا آج صورت حال یکسر مختلف ہے سویت یونین تو آج نہیں رہا پر اس کی جگہ روس نے لے لی ہے بالفاظ دیگر اب امریکہ کا مقابلہ روس اور چین دونوں ممالک مل کر کریں گے بلکہ کر رہے ہیں۔ چینی کیمونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات آج کل عروج پرہیں۔ ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ صدر جو بائڈن سے ملنے کیلئے اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو اپنے ساتھ 50 سے اوپر بھاری بھر کم افراد پر مشتمل وفد کو ایک آدھ دن کیلئے واشنگٹن لے جانے کی بھلا کیا ضرورت تھی جب کہ صرف دو تین افراد نے ہی امریکی صدر سے ملنا تھا۔ ایسے حالات میں جب افغان حکومت کیلئے خطرات بڑھتے جار ہے ہیں واقفان حال کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کو یہ عندیہ دے دیا گیا ہے کہ ان کیلئے یہ بہتر ہو گا کہ وہ از خود اقتدار سے کنارہ کش ہو جائیں یہ بات تو طے ہے کہ طالبان اپنے آپ کو ہی افغانستان پر حکومت کرنے کا واحد حقدار نہیں سمجھتے پر وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ سر دست کابل میں ایوان اقتدار میں بیٹھنے کے دعویدار دھڑوں میں وہ سب سے زیادہ اور مضبوط دھڑا ہے اور اس دعوی میں کافی وزن بھی ہے کہ ان کو اقتدار کا حصہ بنائے بغیر افغانستان میں کوئی بھی گروپ حکومت تشکیل نہیں دے سکتا اس لئے افغانستان کے مخمصے کا واحد حل یہ ہوگا کہ تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں سب سے پہلے وہ تین ماہ کیلئے ایک نگران حکومت کی تشکیل دیں پھر ملک میں ایک شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کروا کر اقتدار الیکشن جیتنے والی پارٹی کے حوالے کریں۔ افغانستان کے زمینی حقائق اور جغرافیائی محل وقوع ہی کچھ ایسا ہے کہ وہاں تن تنہا اپنے ہی زور بازو پر کوئی بھی قوم یا قبیلہ حکومت نہیں کر سکتا اسے خوا مخواہ ہر قبیلے کو حصہ بقدر جثہ دے کر اقتدار کے عمل میں شامل کرنا پڑتا ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ہی زمام حکومت سنبھالی جا سکتی ہے۔ اگر تو افغانستان کے اندر موجود متحارب سیاسی گروپوں نے اب کی دفعہ دوراندیشی اور سیاسی عقل و فہم کا مظاہرہ نہ کیا اور مندرجہ بالا فارمولے پر عمل کرنے کی بجائے زور بازو پر انحصار کرنے کی کوشش کی تو شاید افغانستان ایک مرتبہ پھر شدید قسم کی خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔اس گھمبیرصورت حال سے اسے وہاں موجود سیاسی قیادت ہی باہر نکال سکتی ہے کئی لوگوں کی دانست میں ظاہر شاہ بادشاہ کا دور غنیمت تھا کہ اس میں کم از کم افغانستان امن کا گہوارہ تو تھا۔ امریکہ جب بھی کسی ملک میں مداخلت کا ارادہ کرے تو پہلے وہ اس کے واسطے جواز پیدا کرتا ہے۔ جب امریکہ نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی ٹھانی تو سب سے پہلے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ عراق کے پاس نہایت ہی مہلک قسم کے ہتھیار موجودہیں اس کو جواز بنا کر اس نے عراق پر چڑھائی کی بعد میں دنیا کو پتہ چلا کہ عراق کی سرزمین سے اسے کوئی بھی اس قسم کا ہتھیار نہیں ملا کہ جس کا پروپیگنڈہ اس نے کیا تھا امریکہ کے دوغلے پن کا یہ عالم ہے کہ بھارت میں کئی جگہوں سے یورینیم کی برآمدگی ہوئی ہے کہ جہاں اوپن مارکیٹ میں یورینیم فروخت کیلئے دستیاب تھا امریکہ اس پر کیوں خاموش ہے۔ وہ اس کے خلاف ایف اے ٹی ایف کے تحت پابندیاں کیوں نہیں لگاتا اگر یہ یورنیم پاکستان میں کسی جگہ آج برآمدہوا ہوتا تو نہ جانے اس نے اب تک ہمارے خلاف کیا کیا پابندیاں لگائی ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی حکومت نہ صرف پڑوسی ممالک کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے اور خاص طور پر جو ہری مواد کی حفاظت کے حوالے سے جس غیر ذمہ داری کا بھارت نے مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی باوجود اس کے یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک اسے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت دینے پر غور کر رہے ہیں۔