تعلیمی ابتری، ایک مخلصانہ ۔۔۔

بلاشبہ تعلیم، صحت اور روزگار مملکت خداداد کے باسیوں کے بنیادی آئینی حقوق ہیں مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں پر کوئی بھی حکومت اپنے دوسرے اخراجات پر کٹ لگا کر عوام کے ان تینوں بنیادی حقوق کی کما حقہ، ادائیگی کی کڑوی گولی نگلنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ درحقیقت مصمم ارادے ٹھوس منصوبہ بندی اور مخلصانہ اور ذمہ دارانہ عملدرآمد کی موجودگی ہمیشہ سے نظرانداز رہی ہے اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم کا بجٹ ایک عشرہ قبل مختص ہونے والے حجم سے دوگنا ہوناچاہئے تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ملک کی دوسری جامعات اور خیبر پختونخوا میں بدستور قائم ہونے والے یونیورسٹی کیمپسز کے حالات و واقعات کے بارے میں کچھ زیادہ آگہی تو خیر نہیں البتہ پشاور یونیورسٹی کیمپس کی چاروں جامعات گزشتہ چند سال سے مالی طورپر جس دگر گوں حالت سے دوچار ہیں وہ ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ذمے مختلف مالیاتی اداروں کے واجب الادا قرضوں، ریسرچ سکالرز کے بیرون ملک ایگزامینرز کی فیسوں کی عدم ادائیگی‘ان جامعات سے سینکڑوں ایڈہاک ملازمین کے اخراج، ریسرچ کلچر کی زبوں حالی اور مراعات یا الاؤنسز کی کٹوتی کے سبب ملازمین کے آئے روز دھرنوں‘ احتجاجی ریلیوں اور تالہ بندی سے صاف ظاہر ہے۔ پشاور کیمپس کی چاروں جامعات کے تمام تر ملازمین کے ہفتہ بھر احتجاج کے بعد پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین نے ایک بار پھر احتجاج اور بائیکاٹ کا راستہ اپنالیا ہے جس کا ان سطور کے لکھنے تک کوئی حل سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ لوگ دراصل کنونس الاؤنس، آرڈر الاؤنس، ٹیلی فون بل خاتمے اور بعض دوسری کٹوتیوں پر سراپا احتجاج ہیں جبکہ انتظامیہ کا مؤقف ان سے بالکل مختلف ہے۔ جامعہ کے انتظامی سربراہ دلیل دیتے ہیں کہ جب سیلاب آجائے اور اناج کے ذرائع ملیامیٹ ہوجائیں تو پھر بھی ایک شخص اسی پر بضدہوگا کہ میرے حصے کی دو روٹیوں میں سے کوئی بھی ایک نوالہ کم نہ کرے کیونکہ میں سیلاب کا ذمہ دار نہیں ہوں لہٰذا وہ دو سے کم روٹیوں پر گزارہ نہیں کرے گا۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ پشاور یونیورسٹی کا بجٹ خسارہ گزشتہ کئی سال سے ایک بلین سے زائد چلا آرہاہے اس میں 769 ملین روپے بینکوں کا قرضہ بھی شامل ہے۔ ایسے میں نئے انتظامی سربراہ کے توسط سے یونیورسٹی انتظامیہ نے صوبائی حکومت کے آگے جھولی پھیلا دی اور بالآخر حکومت نے ہاں کردی مگر 80 کروڑ روپے گرانٹ کی فراہمی کیلئے چند شرائط عائد کر دیں پہلے تو یہ کہ یہ پیسے یونیورسٹی کوقسط وار یا مرحلہ وار ملیں گے جبکہ دوسری شرط یہ کہ ایک ارب روپے خسارے کے خاتمے کی کوشش میں حکومتی تعاون کے علاوہ یونیورسٹی کی اپنی کارکردگی یا حصہ کیا ہوگا؟ اب ذرائع کا کہنا یہ ہے یعنی دروغ بہ گردن راوی کہ جامعہ انتظامیہ نے حکومت کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جب80 کروڑ روپے حکومت کی طرف سے مل جائیں تو باقی ماندہ 20کروڑ یونیورسٹی اپنے اخراجات قدرے کم کرکے پورا کرے گی۔ ساتھ ہی حکومت نے اخراجات کم کرنے کا اپنے ایک مراسلے کے ذریعے یونیورسٹی کو طریقہ بھی سکھایا۔ جامعہ کے حالیہ سنڈیکیٹ میں دوسرے مختلف الاؤنسز کی کٹوتی کیساتھ ساتھ بعض دوسرے فیصلے بھی کئے گئے جسے یونیورسٹی اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین نے یکسر مسترد کرکے ایک بار پھر احتجاج شروع کر دیا۔ اساتذہ رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ سنڈیکیٹ کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ بجٹ کی منظوری کے بعد اجلاس کا کورم ٹوٹ گیا تھا جبکہ انتظامیہ بالخصوص انتظامی سربراہ بعض سنڈیکیٹ کے چیئرمین کا مؤقف اس کے برعکس ہے۔ دوسری جانب اسلامیہ کالج کے ملازمین گزشتہ کئی روز سے دھرنا احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں مئی کی تنخواہ تاحال نہیں ملی اور انتظامیہ نے ازراہ مجبوری ادھوری تنخواہ یعنی بیسک پے بینکوں میں بھجوائی ہے ملازمین لینے سے انکاری ہیں بہرصورت جامعات کی مالی حالت آئے روز ابتر سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے جبکہ کوئی معقول حل تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔ ایسے میں یہ بالکل غیر جانبدارانہ اور مخلصانہ مشورہ بھلائی سے خالی نہ ہوگا کہ حکومت ایک ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ قائم کرکے اس میں پیسہ ڈالنے کی ابتداء اپنی طرف سے کرے اور ساتھ ہی ملک بھر کی جامعات کے تمام وائس چانسلروں اور گریڈ22 کے پروفیسروں سے لیکر تمام بیورو کریٹس اراکین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کو حاصل مراعات یعنی الاؤنسز میں سے ماہانہ محض پانچ فیصد کٹوتی کرکے تعلیمی فنڈ میں ڈالنے کا آغاز کرلے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ سالانہ بجٹ میں تعلیم کا حصہ مختص کرنے کی ضرورت ہی ختم ہوجائے گی۔ اس کارخیر میں بیرون ملک مقیم پاکستانی اور عالمی ادارے اور شخصیات بھی پیچھے نہیں رہیں گی۔