ہم کب ٹھیک ہوں گے؟۔۔۔۔۔

نہ جانے ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آ بادی کی طرف ہماری حکومت اور اپوزیشن کا دھیان کیوں نہیں جا رہا آپ بھلے اپنی شرح نمو کتنی ہی تیز کیوں نہ کر لیں آ بادی میں برق رفتاری سے اضافہ اسے چاٹ جائے گا اور آپ معاشی طور پر مستقبل میں بھی اسی جگہ پر کھڑے پائے جائیں گے کہ جس جگہ آ پ آج کھڑے ہیں۔ہمارے اکثر اراکین پارلیمنٹ اسمبلی میں ہر موضوع پر بولتے ہیں پر اس بات سے قوم کو آشنا نہیں کرتے کہ جس پر اپوزیشن اور حکومت دونوں کی عدم توجہ کی وجہ سے اس ملک کی عمارت کی بیخوں میں پانی جا رہا ہے کیا اس ملک کے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کا یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ اب تک اس مسئلے پر انہوں نے اپنی اپنی ریسرچ کر کے قوم کے سامنے بلیک اینڈ وائٹ میں کوئی تجاویز پیش کی ہوتیں اور ا ن پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث کی جاتی؟ چین میں انیس سو انچاس میں جب ماو زے تنگ اور ان کے ہمراہی ایک انقلابی جدو جہد کے بعد برسر اقتدار آئے تو انہوں نے یہ محسوس کیا کہ چین کی آبادی جس سے تیزی سے بڑھ رہی ہے اگر اس پر بریک نہ لگائی گئی تو بھلے چین زندگی کے ہر شعبے میں کتنی ہی اصلاحات کیوں نہ کر لے ان سے حاصل ہونے والے ثمرات بے معنی ہو جائیں گے چنانچہ انہوں ایک ایسا منظم پروگرام بنایا کہ جس کے مثبت نتائج سے آج چین کی آبادی کافی حد تک کنٹرول میں آ چکی ہے چین نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے جس حکمت عملی سے کام لیا اس قسم کی حکمت عملی شایدہم اس ملک میں اپنا نہ سکیں پر بلا شبہ اپنی روایات اور دینی احکامات کے دائرے کے اندر رہ کر اگر ہماری ہر حکومت اس مسئلے کی طرف توجہ دیتی تو اس ضمن میں بہت کچھ ہو سکتا تھا‘س موقع پر نہ جانے ہمیں ضمیر جعفری کا یہ شعر کیوں یاد ا ٓگیا ہے”'شوق سے لخت جگر نور نظر پیدا کرو، ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو“، اس میں کوئی شک نہیں کہ وسائل اور آبادی کے درمیان ایک خاص تناسب ہوناچاہئے اگر وہ بگڑ جائے تو وسائل پر بے تحاشا بوجھ پڑنے لگتا ہے اور یوں وسائل پر بوجھ کادوسرا نام معاشی مشکلات ہیں۔ بے روزگاری ہے اور مہنگائی ہے۔ وطن عزیز کو اسی قسم کے مسائل کاسامنا ہے کہ جو فوری طور پر حل طلب ہیں۔ اب ذرا سوچئے نا ماضی میں کبھی جون جولائی جیسے گرم مہینوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوئی ہے؟ ویسے تو سردیوں میں بھی نہیں ہونی چاہئے۔ پر چلو سردی میں تو حکومت کی طرف سے یہ بہانہ چل جاتا تھا کہ چونکہ سخت سردی میں گیس کی ڈیمانڈ زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے گیس کی لوڈ شیڈنگ نا گزیرہو جاتی ہے خدا لگتی یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل ان ملکوں کا مقدر بن جاتے ہیں کہ جن کے ہاں مناسب پلاننگ کا فقدان ہو اور جہاں گڈ گورننس نامی کسی شے کا تصورہی نہ ہو۔ہمیں یہ بات مان لینی چاہئے کہ ماضی میں ہماری ہر حکومت نے ممکنہ مسائل کا بر وقت حل نہیں نکالا جس کے باعث مسائل گھمبیر ہوتے چلے گئے۔ہم آج تک ان محکموں کی کارکردگی کو ٹھیک نہ کر سکے کہ جن کا عوام کی روزمرہ زندگی سے براہ راست تعلق ہے اور جو مختلف خدمات کی فراہمی پر مامور ہیں۔گزشتہ 70 برسوں میں ہمارا ریلوے کا نظام بہترہونے کے بجاے خراب ہوا‘ ہمارا روڈ ٹریفک کا نظام اتنا دگرگوں ہو چکا ہے کہ اب لوگ اتنی تعداد میں عارضہ دل یا کینسر سے ہلاک نہیں ہو رہے کہ جتنے سڑکوں پر ٹریفک کے حادثات کی وجہ سے ہو رہے ہیں کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس ملک کو ممنوعہ بور کے اسلحہ کے انباروں سے صاف کر سکے کہ جن کی وجہ سے سینکڑوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ممنوعہ بور کا اسلحہ اس ملک میں 1980 کی دہاہی کے بعد ایک بڑی تعداد میں آ یاہم نے کئی حکومتوں کو اس پر کریک ڈاؤن کرنے کا ارادہ کرتے دیکھا پر کسی حکومت نے بھی اپنے اس ارادے کہ عملی جامہ نہ پہنایا۔