4جولائی امریکہ کا یوم آ زادی بھی ہے اور افغانستان سے اس کی افواج کے انخلا کا ممکنہ دن بھی۔ کیا ملا امریکیوں کو افغانستان میں دو عشروں تک اپنی فوج رکھ کر اور ہزاروں افغانیوں کا خون بہا کر سوائے اس کے کہ آج وہ ان بے پناہ نقصانات اٹھانے کے بعد افغانستان کی سر زمین کوخیر آباد کہہ رہے ہیں،اگلے روز پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کو بتلایا گیا کہ افغانستان میں اگر دوبارہ خانہ جنگی چھڑ جاتی ہے تو پانچ سے سات لاکھ افغان مہاجرین کی آمد متوقع ہے یہ خبر ہر محب وطن پاکستانی کیلئے بڑی تشویش ناک ہے اس وقت ملک میں پہلے ہی سے تقریبا 14 لاکھ افغانی مہاجرین موجود ہیں کہ جن کے یہاں قیام سے ہمیں کئی معاشرتی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے اب اگر ان میں مزید سات لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے تو ہماری معاشی اور معاشرتی صورت حال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے۔
البتہ یہ نہیں معلوم کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین اس ملک کا رخ کرتی ہے تو اسے کہاں بسایا جائے گا۔ حکومت پاکستان کو ایران کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔ 1980 کی دہائی میں جب افغان مہاجرین کے ایک بڑے لشکر نے ایران کا رخ کیا تھا تو ایران نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کیلئے اپنے بارڈر کے علاقے میں خصوصی کیمپ بنائے کہ جن کے اندر ہی ان کی رہائش اور خوراک اور طبی سہولیات کا بندوبست کیا گیا اور انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ ایران کے شہروں میں پھیل جائیں۔حکومت پاکستان نے بھی اسی حکمت عملی کے مطابق پیش بندی کے طور پر اسی قسم کا ایک پروگرام مرتب کر لیا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی صد سالہ تقریب میں اگلے روز جو چین کے صدر نے تقریر کی اس کے ہر لفظ سے خود اعتمادی جھلکتی تھی چین کے صدر نے نے امریکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چین کو دھمکانے کا وقت چلا گیا ہے اگر کسی طاقت نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اس کا سر دیوار چین پر مار کر پاش پاش کر دیں گے چین کے صدر شی جن پنگ نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ڈیڑھ ارب عوام کمزور نہیں پڑیں گے۔ سوشلزم ہی چین کو بچا سکتا ہے انہوں یہ بھی کہا کہ وہ اپنی افواج کو طاقتور بنا رہے ہیں اور غیر ملکی افواج کو بدمعاشی نہیں کرنے دیں گے چین کے صدر نے یہ بھی کہا کہ چین نے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے انیس سو انچاس میں چین کا اقتدار سنبھالنے کے بعد مختلف ادوار میں چین کے اندر جو معاشی نظام قائم کیا اس کی وجہ سے چین میں ستر کروڑ افراد غربت کی لکیر سے باہر آ گئے ہیں اور یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ جس کی مثال تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتی یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی چین کی معاشی پالیسی اور قوانین عوام دوست ہیں یورپ اور امریکہ میں نافذ معاشی پالیسیاں شایدہی اتنی عوام دوست ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مبصرین چینی معاشی اور سیاسی نظام حکومت کو مغربی جمہوریت کے نظام سے بہتر سمجھتے ہیں اور چین کی حکومت نے کرپشن کے خلاف جو جنگ جاری رکھی ہوئی ہے وہ بڑی موثر ثابت ہوئی ہے۔