سیاسی اور ریاستی صف بندی کئے بغیر افغانستان سے امریکی انخلاء کے فیصلے نے امریکیوں اور افغان حکمرانوں‘ عوام کے علاوہ پاکستان اور دوسرے پڑوسی ممالک کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ماہرین جولائی اور اگست کے مہینوں کو خطے کی سیکورٹی اور مستقبل کیلئے بہت اہم قرار دے رہے ہیں طالبان کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے اب کے باران کی فتوحات کا سلسلہ ماضی کے برعکس شمالی افغانستان کے اہم جغرافیائی علاقوں سے شروع ہوا ہے اور انہوں نے احمد شاہ مسعود مرحوم‘ رشید دوستم اور دیگر کے علاوہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے آبائی علاقوں اور مراکز پر بھی قبضہ کرلیا ہے دوسری طرف وہ کابل کے نواح میں بھی پہنچ گئے ہیں اور پروان کے متعدد اہم علاقے ان کے قبضے میں آگئے ہیں ملک بھر کے علاوہ پڑوسی ممالک اور عالمی برادری بھی کافی تشویش میں مبتلا ہے جبکہ امریکہ نے اپنے کردار کو محض ایک محدود مالی پیکیج تک محدود کر دیا ہے اسی تناظر میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے2جولائی کی شام پارلیمنٹ کی پارلیمانی سلامتی کمیٹی کو سات گھنٹوں پر مشتمل ایک تفصیلی بریفنگ دی جس میں خطے کی سیکورٹی صورتحال‘ پاکستان کو درپیش چیلنجز اور ریاستی اقدامات پر قومی قیادت کو اعتماد میں لیاگیا سپیکر قومی اسمبلی اور تین متعلقہ حکومتی وزراء کے علاوہ اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف‘ بلاول بھٹو‘ شاہد خاقان عباسی‘ سینیٹر مشتاق احمد خان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ آرمی چیف قمرجاوید باجوہ سمیت متعدد دوسرے رہنما بھی بریفنگ میں شریک ہوئے اور اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں تمام لیڈروں نے بریفنگ پر اعتماد کا اظہار کرکے اسے اطمینان بخش قرار دیدیا یہ قومی اتفاق رائے اور ریاستی پالیسیوں کے حوالے سے بڑی پیشرفت تھی جسکے باعث جہاں قومی اور عسکری قیادت کو مل بیٹھنے کا موقع ملا وہاں ملکی اور عالمی سطح پر بہت اچھا پیغام بھی گیا آئی ایس پی آر کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت اور غیر مشروط تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاہم اپنی سیکورٹی کو درپیش ممکنہ چیلنجز سے پوری طرح آگاہ ہے ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان سمیت کسی کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے رہا اور توقع رکھتا ہے کہ افغان سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات اور پاک افغان سرحد پر حفاظتی باڑ سمیت دیگر معاملات پر بھی قومی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا شاہد خاقان عباسی کے مطابق بریفنگ اطمینان بخش اور حوصلہ افزاء تھی اور قومی لیڈروں نے اس موقع پر اپنی تجاویز دیں جن کو غور سے سناگیا سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق بریفنگ میں افغانستان کے علاوہ کشمیر کے مسئلے اور پاک امریکہ تعلقات پر بھی سیر حاصل اور تفصیلی گفتگو کی گئی اور تجاویز کا تبادلہ بھی ہوا اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے یکم جولائی کو پارلیمنٹ میں اپنے تفصیلی خطاب کے دوران امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات‘ بدگمانیوں اور افغان صورتحال پر واضح انداز میں اپنی حکومت اور پاکستان کا موقف بیان کیااور کہا کہ امریکہ کا جنگ میں حسب سابق ساتھ نہیں دینگے بلکہ امن کی ہر کوشش کی کھل کر تائید کی جائیگی تاکہ افغان مسئلے کا حل نکل آئے اور خطے خصوصاً پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ترقی کا آغاز ہو سکے عمران خان کے مطابق کسی کے خوف یا فائدے کی وجہ سے اپنی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ اب کے بار افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں بلکہ ہمیں افغانستان کا امن اور استحکام عزیز ہے عمران خان کے اس واضح‘ جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ موقف کو ان کے مخالفین اور ناقدین نے بھی سراہا جبکہ ماہرین اور سیاسی کارکنوں نے قومی سلامتی کمیٹی کی بریفنگ کا بھی خیر مقدم کیا قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کو دی گئی اس بریفنگ سے بہت سی افواہیں‘ سرگوشیاں اور غلط فہمیاں دور ہوئیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اعتماد سازی اور فیصلہ سازی کے اس عمل کو تمامتر سیاسی اور ادارہ جاتی اختلافات اور دوریوں سے قطع نظر مستقبل میں بھی جاری رکھا جائے کیونکہ پولیٹیکل ایڈجسٹمنٹ کئے بغیر امریکی انخلاء اورحال ہی میں پاکستان میں کئے گئے بعض حملوں سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے اور مشاورت لازمی ہے پاکستان کی قومی قیادت اور متعلقہ قومی اداروں کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس قسم کے حالات اور چیلنجز کے دوران سب ایک صفحے پر کھڑے نظرآتے ہیں اور ممکنہ خطرناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے لازمی ہے کہ اندرونی سیاسی اختلافات سے قطع نظر ایک ایسا مشترکہ لائحہ عمل اور راستہ اپنایا جائے جسکے نتیجے میں جہاں پاکستان کی سیکورٹی اور امیج کو بہتر بنایا جاسکے وہاں جنگ زدہ افغانستان کو ایک اور خانہ جنگی سے بچانے میں اپنا مثبت کردار بھی ادا کیا جائے۔