بدلتی ہوئی سیاسی حقیقتیں ۔۔۔۔۔۔

لگ بھگ بیس برس کے بعد افغانستان میں مشہور زمانہ بگرام کا ہوائی اڈہ امریکہ نے خالی کر دیا ہے اور افغان نیشنل آرمی نے اس کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ اسے اپنے قبضے میں رکھنے کی سکت بھی رکھتی ہے یا نہیں آپ نے یہ چیز نوٹ کی ہوگی کہ افغان معاملہ ناز ک موڑ میں داخل ہو اہے، فریقین کی کوشش ہے کہ وہ اپنے آپ کو بالادست پوزیشن پر رکھے۔ دیکھا جائے توافغان طالبان کی پالیسی کامیاب رہی ہے۔قوام متحدہ میں بھی بات چیت کیلئے انہیں بلایا جاتا ہے انہیں ترکی سے بھی اسی قسم کا دعوت نامہ آتا ہے قطر کی حکومت میں بھی انہیں کافی پذیرائی ملتی ہے حتی کہ بھارت بھی ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا خواہشمند ہے اور امریکہ سے بھی ان کی گفتگو ہوتی رہتی ہے اس لیے اگر کوئی یہ کہے کہ دنیا انہیں تسلیم نہیں کرتی تو یہ بات حقیقت کے برعکس ہو گی۔ اگلے روز اسلام آباد میں افغانستان کے بارے میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم کی عدم شرکت پر بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آ رہی ہیں بہتر تھا کہ اگر اس کی صدارت وزیر اعظم صاحب کرتے قومی سلامتی صرف بارڈر سیکیورٹی تک ہی محدود نہیں ہے یہ ایک ہمہ گیر مسئلہ ہے جس میں معیشت بھی شامل ہے اور دریاؤں کے پانی کے حقوق کا بھی اس سے گہرا تعلق ہے۔ور حاضر میں دشمن ملکوں کو صرف جنگ میں الجھا کر تباہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی معیشت کو تباہ کر کے بھی اس کو پچھاڑا جاتاہے ان کے دریاؤں کے پانیوں کا رخ موڑ کر ان کی اراضیات کو بنجر بنا کر ان کی زراعت کو زک پہنچا کر بھی انہیں سر نگوں کیا جاتا ہے لہٰذا قومی سلامتی کو یقینی بنانا صرف فوج کی ہی ذمہ داری نہیں اس کو یقینی بنانا تمام قوم کا سانجھا کام ہے قومی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ دور حاضر میں چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جو 1949 سے قبل ایک نہایت ہی خستہ حال ملک تھا جس کا جی چاہا اس نے اس پر حملہ کیا۔تقریبا ایک سو برس تک بیرونی ممالک جن میں برطانیہ فرانس جاپان وغیرہ شامل تھے نے مختلف ادوار میں چین کا ہر لحاظ سے استحصال کیا تاوقتیکہ چین میں ما و زے تنگ اور چو این لائی جیسے رہنما پیداہوئے اور انہوں نے چینیوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور ان کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کر کے ایک عظیم قوم اور ملک بنا دیا ہانگ کانگ جیسے کئی علاقے جو غیر ملکیوں نے قبضہ کر رکھے تھے ان کو آزاد کرا کر چین کے ساتھ دوبارہ ضم کیا کوئی دن جاتا ہے کہ تائیوان اور تبت کو بھی چین کے ساتھ ضم کرنے  میں چینی حکمران کامیاب ہو جائیں گیا۔امریکہ بلاشبہ تیزی سے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے سخت بد حواس بھی ہے اور پریشان بھی واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو اپنی سرزمین پر فوجی اڈہ دینے سے جو انکار کیا ہے اس پر امریکہ کو سخت مایوسی ہوئی  ہے اور وہ اب یہ کوشش کر رہا ہے کہ وسطی ایشیا کا کوئی ملک اسے اپنی سرزمین پر فوجی اڈے کی اجازت دے تاکہ وہ چین اور روس کی سرحدوں کے قریب رہ کر ان دونوں ممالک پر کڑی نظر رکھ سکے اس سلسلے میں وہ وسطی ایشیا کے مختلف ممالک سے رابطے میں ہے پر تقریبا ًتقریباً تمام وسطی ایشیا کے ممالک جو کہ کسی زمانے میں سوویت یونین کا حصہ تھے اور اب سب کے سب آزاد ہیں چین اور روس کے قرب میں واقع ہیں اور اگر انہوں نے امریکہ کی بات مان کر اپنی سر زمین پر اسے کوئی فوجی اڈہ فراہم کیا تو اس پر وہ چین اور روس دونوں کی دشمنی مول لے لیں گے جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ شاید امریکہ کو وسطی ایشیا میں کسی جگہ بھی فوجی اڈہ بنانے کی اجازت نہ مل سکے سیاسی مبصرین کی رائے میں امریکہ کو اب تسلیم کر لینا چاہئے کہ چین دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے جو آئندہ پانچ سالوں میں امریکہ کو معاشی میدان میں بہت پیچھے چھوڑ دے گی۔لہٰذاوقت کا تقاضہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ مخاصمت کی بجائے امن و آشتی کی فضا قائم کرے۔ کیونکہ چین نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ جنگ کی بجائے امن اور اقتصادی ترقی کی ہے اور دیکھا جائے تو چین نے عرصہ دراز سے اپنے آپ کو جنگوں سے بچا کر رکھا ہے اور اپنی تمام توجہ سائنس‘ زراعت اور زندگی کے مختلف شعبوں کو ترقی دینے پر مرکوز رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اقتصادی طور پر نمایاں پوزیشن نہ ہونے کے باوجود ترقی کا سفر مسلسل جاری رہا اور آج اسے دفاعی لحاظ سے اور معاشی ترقی کے حوالے سے سپرپاور کا درجہ حاصل ہے یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین جیسا مخلص دوست ملک اس کے پڑوس میں ہے جو دیگر سرمایہ دار ممالک کے برعکس آپ کو اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی میں مدد تو فراہم کرتا ہے مگر آپ کی پالیسیوں پر گرفت رکھنے کی کوشش نہیں کرتا امریکہ اور مغربی ممالک نے پاکستان کے ساتھ ایسا رویہ اپنائے رکھا کہ جو مدد فراہم کی اس کے بدلے میں اپنے مفادات کا زیادہ تحفظ کیا اور پاکستان کے مفادات کو نظر انداز رکھا اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کھل کر چین کے ساتھ عالمی منظر نامے پر منسلک ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب امریکہ کے مطالبات کو رد کرنے کے قابل ہو گیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو ایسے معاملات میں الجھانا تھاجس کا سارا فائدہ امریکہ کو ہوتا۔