افغانستان، خدشات اور توقعات۔۔۔۔۔

افغانستان کی اندرونی صورتحال آئے دن دگرگوں ہوتی چلی جا رہی ہے اس پر اگلے روز پاکستان اور ایران نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے  وہ نہایت بجا ہے اور یہ بھی اچھا ہے کہ پاکستان نے ایران کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متوقع افغان مہاجرین کی آمد پر سرحد کے قریب کیمپ بنا کر ان کو وہاں تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف تاجکستان اور ازبکستان نے بھی امریکہ کو اپنے ہاں فوجی اڈہ دینے سے انکار کر دیا ہے اب امریکی افواج قطر میں ہی بیٹھ کر افغانستان کی اندرونی صورت حال کو مانیٹر کیا کریں گی افغانستان کی موجودہ قیادت ملک کے بدلتے حالات کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔ گو کہ افغان نیشنل آ رمی نے بگرام کے ائرپورٹ کانظام سنبھال لیا  ہے پر یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے  میزائل بھی طالبان کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ان حقائق کے پیش نظر کابل ایئرپورٹ سے دوسرے ممالک اور دیگر ملکوں سے کابل آنے والے جہازوں کی پروازوں کو بھلا کوئی کیسے محفوظ قرار دے سکتا ہے لگتا یہ ہے ابھی افغانستان کی پریشانی کے دن ختم نہیں ہوئے۔ سوویت یونین نے جب  1980ء کی دہائی میں افغانستان خالی کیا تھا  تب بھی اس نے اپنے پیچھے  ایک سیاسی خلاء  چھوڑا تھا اور اب جبکہ امریکہ نے اپنی افواج کو افغانستان سے باہر نکال لیا  ہے تو اس نے بھی اپنے پیچھے ایک خلا ء ہی  چھوڑا ہے اس ملک کے اور افغانستان  کے پرانے بزرگ سیاسی مبصرین کو افغانستان  میں ظاہر شاہ کی حکومت کے دن یاد آرہے ہیں ظاہر شاہ نے کم و بیش افغانستان  پر چالیس برس تک بلا شرکت غیرے حکومت کی اور اگر ہم ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے  اور ان سے اقتدار چلے جانے کے بعد کے حالات کا تقابلی جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ماضی قریب میں افغانستان میں ان کا دور اس لحاظ سے بہترین  دور تھا کہ افغانستان  امن و آشتی کا گہوارہ بن گیا تھا یاد رہے کہ افغانستان میں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف قبائل رہتے ہیں ان سب کو اعتماد میں لیکر یکجا کر کے ان پر حکومت کرنے کیلئے کافی سیاسی فہم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہر شاہ کے دور حکومت میں ملک میں انتشار کا کہیں نام و نشان نہ تھا ظاہر شاہ کے دور میں ہر سال گرمی کے موسم میں کابل میں جشن  افغانستان کے نام سے ایک جشن منعقد ہوا کرتا تھا جس میں پاکستان اور ہندوستان دونوں سے ہزاروں افراد شرکت کرتے تھے اس جشن کے دوران کابل  میں میوزک کنسرٹس بھی ہوتے تھے اور فلموں کی نمائش بھی ان تقاریب میں ظاہر شاہ اور ان کے رفقائے کار  شرکت کرتے جس دن سے ظاہر شاہ کی بساط لپیٹ دی گئی اس دن سے لے کر آج تک افغانستان نے سکھ کا سانس نہیں لیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔حال ہی  میں پاکستان میں جو دہشت گردی کی کاروائی ہوئی ہے اسکے بارے میں ہمارے دو رہنماؤں  نے میڈیا کو بتایاکہ اس میں بھارت کا ہاتھ ثابت ہوگیا  ہے اگر اس قسم کا واقعہ بھارت میں ہوا ہوتا  اور بھارتی حکام کو یہ ثبوت اگر مل گیا ہوتا کہ اس میں پاکستان کا ہا تھ ہے تو اس نے اب تک آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے میڈیا نے ابھی تک اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اتنا  اجاگر نہیں کیا کہ جتنا اسے کرنا چاہئے تھا کیا دنیا کو یہ بتانا ضروری نہ تھا کہ پاکستان کو تو ایف ٹی اے ایف کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ لاھور کے دھماکے  میں  بھارت کے ہاتھ اور اس سے پیشتر بھارتی جاسوس کلبھوشن کے اعتراف جرم کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ جس میں اس نے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کا اقرار کیا تھا۔