قومی اثاثے ۔۔۔۔۔۔۔

آئیے ہم آج ایک اہم مسئلے پر سوچ بچار کر لیں کہ جو اس ملک کیلئے تشویش کا باعث ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک ایسی سیاسی پارٹی کی کارکردگی پر ذرا مزید تبصرہ کر لیں کہ جس نے دنیا بھر کو اپنے حسن کارکردگی کی وجہ سے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور جس کی کئی باتوں ہر عمل پیرا ہو کرہم اپنے ملک کو بھی گل گلزار بنا سکتے ہیں۔ یہ جو ہم نے اپنے بعض قومی اثاثے گروی رکھ دئیے ہیں اس سے اس ملک کے عام آدمی کو دلی رنج ہوا ہے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قومی اثاثے ہر ملک کی عزت اور وقار ہوتے ہیں یہ کسی بھی ملک یا قوم کے شایان شان نہیں کہ ان اثاثوں کو گروی رکھ دیا جائے یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس ملک کے ماضی کے بعض حکمرانوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے دھڑا دھڑ قرضے لیے اگر تو واقعی عام آدمی کی حالت زار کو ٹھیک کرنے کیلئے یہ قرضے استعمال کر دئیے جاتے تو پھر بھی کوئی بات تھی پر دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے اپنی تجوریاں زیادہ بھریں اور ملک اور قوم کی فلاح پر بہت کم خرچ کیا یہی وجہ ہے کہ لوگ طنز یہ کہتے ہیں کہ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس کے حکمران بڑے امیر و کبیر ہیں جبکہ اس کی رعایا غریب ہے۔جن قومی اثاثوں کو گروی رکھا گیا ہے ان میں موٹر ویز بھی شامل ہیں اور کئی ایئرپورٹس بھی۔تجربہ یہ بتاتا ہے کہ سپرپاورزتیسری دنیا کا معاشی قتل اس طرح کرتے ہیں کہ وہ ان ممالک کو امداد کے نام پر قرضوں میں جکڑ لیتے ہیں اور مقروض ممالک بعد میں بامرمجبوری تمام قومی اثاثے عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے ماضی کی کئی حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں بیرونی قرضے لئے پر قوم کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان میں سے کتنے پیسے کن کن منصوبوں پر کہاں کہاں خرچ ہوئے ا اس معاملے میں قوم کو بالکل کچھ معلوم نہیں اور ہر حکومت نے اسے اندھیرے میں رکھا ہے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا دفتر ایک آئینی ادارہ ہے یہ اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پیسوں کے استعمال پر کڑی نظر رکھے کہ جو حکومت ملک کے اندرونی وسائل سے پیدا کرتی ہے یا پھر بیرونی قرضوں کی صورت میں حاصل کرتی ہے اور اس بات کی تسلی کرے کہ وہ پیسے کہاں کہاں خرچ ہوئے اور کیا ان پیسوں کو ملکی قوانین کے مطابق خرچ کیا گیا مانا کہ ہر سال ہر محکمے کی آ ڈٹ رپورٹ بھی بنتی ہے اور آڈٹ پیراز بھی لکھے جاتے ہیں ہر کسی کو یہ شاذ ہی بتایا جاتا ہے کہ ان پر پھر کیا ایکشن لیا گیا ہے ایک ہفتے سے تمام دنیا کی نظریں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات پر جمی ہوئی ہیں اور اس سیاسی پارٹی کی کامیابی کے مختلف پہلوؤں پر دنیا بھر کے سیاسی مبصرین مختلف زاویوں سے تبصرہ کر رہے ہیں یوں تو دنیا میں اور بھی کئی سیاسی پارٹیاں ہیں کہ جو چین کی کمیونسٹ پارٹی سے بھی پرانی پارٹیاں ہیں پر جو کام اور کارکردگی چین کی کمیونسٹ پارٹی نے دکھائی ہے۔ وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس وقت چین کی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت نو کروڑ بیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اس پارٹی کی نچلی سطح پر 46 لاکھ 20 ہزار تنظیمیں ہیں اور جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ ان تنظیموں سے ہر معاملے میں رائے لی جاتی ہے اور ملکی پالیسی ان کی آ راء کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی ہر پانچ برس بعد ان تنظیموں کی آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے اور حالات حاضرہ کا تجزیہ کرنے کے بعد پالیسی کی منظوری دیتی ہے ایک زمانہ تھا کہ جب دنیا کے کئی ملکوں میں کمیونسٹ یا سوشلسٹ حکومتیں قائم تھیں آج صرف چار ممالک یعنی چین لاؤس ویت نام اور کیوبا اپنے آپ کو کمیونسٹ ملک کہتے ہیں شمالی کوریا جو کل تلک اپنے آپ کو کمیونسٹ ملک کہا کرتا تھا اب یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ مارکسزم کے بجائے ”خود انحصاری“ کے نظریے کا پرچارک ہے۔ جہاں تک کمیونزم کا تعلق ہے اس وقت دو ممالک ایسے ہیں کہ جنہیں آپ صحیح معنوں میں کمیونسٹ ممالک کہہ سکتے ہیں ایک چین اور دوسرا غالبا کیوبا۔