ایک زمانہ تھا کہ موجودہ پختونخوا اور اس وقت کے شمالی مغربی سرحدی صوبے جسے مخفف میں این ڈبلیو ایف پی کہاجاتا تھا صوبے میں قائم چار یونیورسٹیاں پشاور یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی معمولی تبدیلی کیساتھ محض ایک ہی یعنی 1974ء کے ایکٹ کے تحت چلتی رہی۔ جامعات کی خود مختاری بحال تھی اور مالی ابتری کا مسئلہ بھی درپیش نہیں تھا۔ بعد ازاں جب جمہوری حکومتوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا تو صوبے کی موجودہ سے گزشتہ حکومت نے سال 2012ء کا جامعات ماڈل ایکٹ متعارف کرالیا تاہم جب اساتذہ کا ردعمل سامنے آیا تو سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئے ایکٹ میں قدرے تبدیلی لائی گئی مگر پھر بھی خود مختاری متاثر ہونے سے محفوظ نہیں رہی اور پھر رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب جامعات کو باقاعدہ آئینی طورپر صوبوں کے حوالے کردیاگیا پھر کیا تھا؟ ایک بعد ایک نیا ترمیم شدہ ایکٹ سامنے آنے کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال تھم نہیں سکا۔اب دو کشتیوں کی سوار یونیورسٹیاں ڈبل خواری کا سامنا کر رہی ہیں۔ وفاقی وزارت تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ناز و انداز (اور اپنی مرضی ٹھونسنے کا مزاج اپنی جگہ) بجٹ وفاقی حکومت کے پاس جبکہ احکامات اور مرضی صوبائی حکومت کے پاس، دوسری طرف ایسی حالت میں بھی جب یونیورسٹی ملازمین تنخواہیں نہ ملنے اور اپنی روزی روٹی بچانے کی مہم جوئی کرتے ہیں تو یہ عارضی اور روایتی نعرہ بھی دہرایا جاتا ہے کہ ”جامعات کی خود مختاری میں صوبائی مداخلت قابل قبول نہیں“ یہ نعرہ سن کر مجھ جیسا سادہ لوح بندہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بھی جامعات کی خود مختاری قائم ہے؟ یونیورسٹیوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندہ، آسودہ حال اور خود مختار رہنے کیلئے اپنے ذرائع آمدن کا ہونا کس قدر ناگزیر ہے۔ یہ بات ان سطور میں پہلے بھی کہی گئی ہے کہ یہ ایک المیہ اور تلخ حقیقت ہی سہی مگر جامعات کی خود مختاری اب محض عیدیں پراپنی مرضی کی چھٹیاں منانے تک محدود رہ گئی ہے۔ صوبے کی سرکاری جامعات بالخصوص پشاور کیمپس میں اساتذہ اور غیر تدریسی ملازین کے احتجاج کا ایک ختم نہ ہونیوالا سلسلہ عرصہ سے جاری ہے۔ تنخواہ بیسک تک پہنچنے پر احتجاج‘ تنخواہ مؤخر ہونے پر احتجاج، الاؤنسز میں کٹوتی پر احتجاج ڈیوٹی یا کام پر اضافے پر احتجاج الغرض ایسی بہت سی ہی وجوہات اور عوامل ہیں جن میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ احساس محرومی، الجھاؤ اور بے اطمینانی کی موجودہ کیفیت کی ابتداء کہاں سے ہوئی یا یہ کہ اس ناگفتہ بہہ حالت کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ کہ بغیر منصوبہ بندی اور بغیر بجٹ یونیورسٹیوں یا اعلیٰ تعلیم کو صوبوں کی جھولی میں ڈال دیاگیا۔ دوسری یہ کہ تعلیمی بجٹ میں ناقابل برداشت مہنگائی جبکہ تنخواہوں اور پنشن کیساتھ ساتھ اعلان کی حد تک مراعات یا الاؤنسز میں روایتی اضافہ جاری رکھا گیا جبکہ بجٹ کو سو فیصد بڑھانے کی بجائے تقریباً آدھا کر دیاگیا۔ معلوم نہیں کہ جس بدترین مالی صورتحال سے خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیاں بالخصوص پشاور کی پرانی جامعات دوچار ہیں ایسی حالت سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی ہے یا نہیں؟ ابھی تقریباً حال ہی کی بات ہے کہ وفاق نے ملازمین کیلئے25 فیصدکا اعلان کیا مگر بعد ازاں اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے وضاحت کر دی کہ یہ ریلیف10 فیصد بجٹ اضافے کیساتھ محض ان اداروں اور جامعات کے ملازمین کیلئے ہے جو وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہیں۔اب ظاہر ہے کہ صوبے کی یونیورسٹیاں تو اب وفاق کے زیر انتظام ہیں ہی نہیں تو یہ اضافہ کیسے ملے گا؟ یہ بات تو طے ہے کہ یونیورسٹیاں اس پوزیشن میں ہیں ہی نہیں کہ وہ اپنے ملازمین کو 25جمع 10 یعنی 35 فیصد اضافی تنخواہ فراہم کردیں اب اگر ملازمین اس کیخلاف بھی نکل آئیں تو یقینا احتجاج کا ایک نیا بھونچال آئے گا۔ یہ سوچ تو مفلوج بلکہ معدوم ہے کہ جامعات کیلئے اپنے ذرائع آمدن پیدا کرنا، اخراجات میں کمی یا کفایت شعاری اور حکومت کو تعلیمی بجٹ میں اضافے کیلئے آمادہ کرنے کے ساتھ مالی حالت مزید ابتر ہونے سے بچانے کی خطار اپنی طرف سے کچھ ڈالنا یعنی قربانی دینا بھی ہے۔ اگر حالت یہی رہی تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کو بدحالی، پسماندگی اور مالیاتی اداروں کے مزید مقروض ہونے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے