برداشت میں ہی ہماری بقاہے۔۔۔۔

افغانستان میں ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں۔ اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر 1979 تک کے عرصے پرہی اگرہم ایک نظر ڈالیں تو یہ بات آ شکارا ہو جائے گی کہ افغانستان میں پشتون قبیلہ سے تعلق رکھنے والوں نے ہی وہاں حکمرانی کی۔ پہلی مرتبہ جو تاجک افغانستان کا حکمران بنا اس کا نام ببرک کارمل تھا‘ برہان الدین ربانی بھی اس ملک کا کچھ عرصے تک سربراہ رہا اس کا تعلق بھی تاجک قبیلہ سے تھا۔ 1980 کی دہائی میں افغان مجاہدین کے جن گروپوں نے سوویت یونین کی افواج کو افغانستان سے نکالنے کیلئے جنگ کی تھی اس میں تاجک ازبک اور ہزارہ قبائل کے لوگوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا جسکی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی شناخت ہوئی تھی لہذا سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان حکمرانوں کیلئے یہ بات مشکل ہوگئی تھی کہ ان کو اقتدار سے دور رکھا جاسکتا لگ یہ رہا ہے کہ آج ہو کہ کل جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور پر نکال لیں گے تو اس کے بعد اس صورت میں وہاں خانہ جنگی کا خطرہ ہے اگر افغانستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کو اقتدار میں نمایاں حصہ نہ دیا گیا۔ اس لیے سیاسی فراست دور اندیشی اور عقل مندی کا یہ تقاضا ہوگا کہ افغانستان میں رہنے والے تمام قبیلوں کو حصہ بقدر جثہ اقتدار میں اپنا حصہ دیا جائے تاکہ کسی قبیلے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔اہل مغرب نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے دیکھئے ناں کنیڈا میں 23 فیصد فرانسیسی ہیں اور اس کی قومی زبانیں دو ہیں سوئٹزرلینڈ کی مثال لے لیجئے وہاں تین قومی زبانیں ہیں فرانسیسی جرمنی اور اطالوی۔ کیا افغانستان میں بسنے والی اکثریتی پارٹی وہاں کی اقلیتوں کو ان کے جائز سیاسی اور اقتصادی حقوق دے پائے گی افغانستان میں آئندہ امن کا انحصار کافی حد تک اس سوال کے درست جواب پرہو گا۔اب ذرا دو چار باتیں اگر دو دیگر اہم امور کے بارے میں کرلی جائیں تو بے جا نہ ہوگا وزیراعظم صاحب کا حالیہ دورہ گوادر ایک صائب اقدام تھا ہم اسی کالم کے ذریعہ ماضی میں بھی درخواست کر چکے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ بلوچستان کی طرف توجہ دیں اور اس ضمن میں انہیں کم از کم ہر مہینے میں اس صوبے کا ایک مرتبہ چکر لگانا ضروری ہے کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اپنے حالیہ دور ہ بلوچستان میں واپسی کا سفر بذریعہ روڈ کرتے تا کہ ان کو وہاں کے زمینی حقائق کے بارے میں سو فیصد فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ملتی گوادر کی بین الاقوامی بندرگاہ کی تعمیر سے بلوچستان کی قسمت خصوصی طور پر پر اور پاکستان کی عمومی طور پربدلے گی اور یہ حقیقت بھارت کی آنکھوں میں بھی کھٹک رہی ہے اور دنیا میں دیگر ممالک جو ہماری ترقی نہیں چاہتے وہ بھی اس پر نالاں ہیں چنانچہ وہ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں جگہ جگہ امن عامہ کے مسائل پیدا کئے جائیں تاکہ وطن عزیز میں ہونے والے تمام ترقیاتی کاموں کو بریک لگ جائے وزیراعظم صاحب نے ناراض بلوچ رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور ان کی ناراضی دور کرنے کیلئے مناسب اقدامات لینے کا جو اعلان کیا ہے اس پر ہر محب وطن پاکستانی بہت خوش ہے امید ہے کہ اب کی بار اس ضمن میں خاطرخواہ پیش رفت ہو اور ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے صرف اسی طریقے سے ہم پاکستان دشمن قوتوں کی چالوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں گے وزیر اعظم صاحب کے اس بیان سے کہ حکومتی عہدیدار پروٹوکول کم کریں کریں ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں ابھی تک وی وی آئی پی کلچر کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر نہیں پھینکا جا سکا ہے جو قابل افسوس بات ہے۔