ایک اور پسپائی

کبھی کبھی یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے درآمدی ایندھن پر بجلی کا نظام بنایا اب وہ خود ہی اس پر واویلا کر رہے ہیں انہیں قوم کو یہ جواب ضرور دینا چاہئے کہ انہوں نے ملکی وسائل چھوڑکر امپورٹڈ فیول پر پاور پلانٹس کیوں لگائے،کیا یہ درست نہیں کہ بجلی کا پیداواری نظام سابق حکومتوں نے درآمدی فیول پر منتقل کیا وہ ملکی وسائل چھوڑ کر درآمدی بجلی گھر لگانے کے ذمہ دار ہیں‘کیا یہ حقیقت نہیں کہ گزشتہ آٹھ سال میں 26 ہزار میگا واٹ کے بجلی کے جو معاہدے کئے گئے وہ ازحد مہنگے ہیں،سابق صدر ایوب خان کوآج سے 60 برس پہلے اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ اگر فوری طور پر ڈیم نہ بنائے گئے تو یہ ملک بہت جلد بجلی کے بحران کا شکار ہو جائے گا چنانچہ اس ضمن میں جو تھوڑا بہت کام ہوا وہ انہیں کے دور حکومت میں ہی ہوا ان کے بعد جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے عملًا کچھ نہ کیا آج بھی صورت حال سدھری نہیں ہے آج بھی ہمارا دھیان ملک میں پانی سے بجلی بنانے کے ڈیموں کی طرف نہیں ہے کہ جو ماہرین کے مطابق سستی ترین بجلی پیدا کرتے ہیں پچھلی حکومتوں کے سر پر جب بجلی کی کمی کا بوجھ یڑا تو انہوں نے اپنے سر پر سے یہ بوجھ ٹالنے کیلئے شارٹ کٹ مارا اور فیول سے بجلی بنانے کا سہارا لیا کہ جو مہنگا تو تھا پر اس سے بجلی بنانے میں اتنا وقت نہیں لگتا تھا کہ جتنا پانی کے ڈیم بنا کر بجلی پیدا کرنے پر لگتاہے،ویسے تو یہ ملک لاتعداد مسائل کا شکار ہے پر جو امور فوری حکومتی توجہ کے مستحق ہیں ان میں پانی کی کمیابی اور آبادی میں اضافے کے مسائل سر فہرست ہیں مندرجہ بالا دو مسائل کے علاوہ افغانستان میں جب تک حالات مستحکم نہیں ہونگے وہاں کی اندرونی حالت بھی ہمارے لئے درد سر بنی رہے گی،آج زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ افغانستان میں تین کروڑ 90 لاکھ آبادی پر مشتمل 421 اضلاع میں سے ایک تہائی سے زیادہ پر طالبان باقاعدہ حکومت کر رہے ہیں اور آج کل وہ اپنے آپ کو طالبان نہیں کہتے بلکہ امارات اسلامیہ افغانستان کے نام سے پکارا جانا پسند کرتے ہیں،کئی سیاسی مبصرین کے خیال کے مطابق موجودہ افغان حکومت کو زمین بوس ہوتے ہوئے میں 6 ماہ سے بھی شایدکم عرصہ لگے افغان نیشنل آرمی کے جوان منحرف ہو کر تاجکستان جارہے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ اس عمل کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، اس ضمن میں وہ ان کو تاجکستان میں پناہ دلوا رہا ہے یہ بھی عین ممکن ہے کہ اگلے مرحلے میں یہ لوگ امریکہ پہنچ جائیں یہ بات تو طے ہے کہ مستقبل قریب میں ایک لمبے عرصے تک افغانستان میں امارات اسلامیہ کا نظریہ غالب رہے امریکہ کیلئے یہ سوچ کا مقام ہے کہ 2001 ء سے لیکر اب تک افغانستان میں فوجی مداخلت کے بعد اس کے بیس ہزار فوجی زخمی ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد معذور ہو گئی ہے اسی طرح ان 20 سالوں میں امریکہ نے کئی ٹریلین ڈالرز افغانستان کی جنگ میں جھونک ڈالے اس کے باوجود اسے کیا فائدہ ملا بجز رسوائی کے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے متعلقہ حکام کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات درج کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑے،رہی بات بعض افغان رہنماؤں کی تو لگتا یہ ہے کہ مستقبل میں ایک لمبے عرصے تک شاید وہ مغرب کے کسی ملک میں اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن جلا وطنی میں گزاریں اور یا پھر بھارت میں،مستقبل میں افغانستان کی قیادت ملا محمد عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دے رہی ہے اس مسئلے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بڑی ضروری ہے کہ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔