ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ہمیں تین ماہ قبل مطلع کر دیا تھا کہ پاکستان جولائی اور اگست میں کورونا کی چوتھی لہر کی زد میں آ سکتا ہے جو پہلی تین لہروں سے زیادہ خونخوارہو گی اور خدا نہ کرے ہم اس قسم کے حالات کا شکار ہو سکتے ہیں جس کا بھارت اور بنگلہ دیش ہو رہے ہیں۔اب گزشتہ جمعرات کے دن عمران خان نے بھی اسی قسم کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے ایک مرتبہ پھر ایس او پیز پر سختی سے عمل درامد کرنے کی اپیل کی ہے اور قوم کو خبردار کیاہے کہ اگر کورونا کیسز کا گراف مزید اونچا ہو گیا تو حکومت کے پاس بجز اس کے کوئی چارہ نہ ہوگا کہ وہ ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کا رخ اختیار کرے ایک اخباری اطلاع کے مطابق اگلے روز جوڈیشل کمپلکس پشاور میں خونریز تصادم ٹل گیا اور تین گروہ اسلحہ سمیت گرفتار ہو گئے گرفتار ملزمان کا تعلق پشاور اور چارسدہ سے بتایا جاتا ہے اور وہ اپنے مخالفین کو نشانہ بنانا چاہتے تھے اس قسم کی خبریں آپ روزانہ پڑھتے رہتے ہوں گے اور اس قسم کے واقعات اس وقت تک تواتر سے ہوتے رہیں گے کہ جب تک ہم نے اس مسئلے کا کوئی ٹھوس اور دیرپا حل نہ نکالا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں عام آدمیوں کے پاس آ ٹومیٹک اسلحہ کا ایک انبار لگا ہوا ہے۔ اب تو یہ فیشن سا ہو گیا ہے کہ ہر خاندان چاہتا ہے کہ اس کے گھر میں زیادہ سے زیادہ ممنوعہ بور کا اسلحہ موجودہو۔ ماضی میں تو یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ ہر شخص کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ممنوعہ بورڈ کے اسلحہ کا لائسنس جاری کرے ہاں اگر کوئی شخص ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے یہ ثابت کر دیتا کہ اس کی دشمنی چل رہی ہے اور اسے اپنی جان کی حفاظت کیلئے اسلحہ درکار ہے تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ زیادہ سے زیادہ اسے غیر ممنوعہ بور کے پستول یا ریوالور کا لائسنس جاری کردیتا تھا۔ آج تو ہرکسی کے پاس کلاشنکوف موجود ہے جس کے ایک ہی فائر سے درجنوں افراد قتل کئے جا سکتے ہیں ماضی میں غیر ممنوعہ بور اسلحہ کے لائسنس جاری کرنے کا اختیار صرف ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس ہوا کرتا تھا اور اس کا بھی ایک فکسڈ ماہانہ کوٹہ ہوا کرتا تھا۔اس ملک میں مختلف نوعیت کے جھگڑوں میں کلاشنکوف اور دیگر ممنوعہ بور کے اسلحہ کے استعمال سے بڑے پیمانے پرجانی نقصان ہورہاہے۔ تاہم کس بھی حکومت نے صدق دل سے کوشش ہی نہیں کی کہ ایک ٹھوس قسم کا آپریشن کلین اپ کر کے ملک کو ممنوعہ بور کے اسلحہ سے پاک کیا جائے۔ ماضی میں جب بھی کسی حکومت نے آپریشن کلین اپ کرنے کا سوچا توکچھ لوگوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اب بھی وقت ہے کہ پہلے مرحلے میں تو حکومت میڈیا کے ذریعے اطلاع عام کرے کہ ایک مہینے کے اندر اندر جس کسی کے پاس بھی ممنوعہ بور کا کوئی بھی اسلحہ ہو وہ اسے اپنے نزدیکی پولیس سٹیشن میں جمع کرا دے جس کے بدلے میں اسے ایک پکی رسید دی جائے گی ایک ماہ کے بعد اس جمع شدہ اسلحہ کی ایک کمیٹی کے ذریعے مارکیٹ ویلیو متعین کرکے حکومت اسے خرید لے گی اور جن لوگوں نے یہ اسلحہ جمع کرایا ہو گا انہیں اسکی قیمت ادا کر دی جائے گی اس کے ساتھ ساتھ ایک قانون پاس کیا جائے کہ ایک مہینے کی مقرر شدہ مدت کے بعد اگر کسی کے پاس ممنوعہ بور کا کوئی اسلحہ پایا گیا تو اسے دس لاکھ روپے جرمانہ اور دس سال قید بامشقت سنائی جائے گی اور پھر اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ دیکھا جائے تو ہوائی فائرنگ ہو یا پھر دیگر واقعات میں انسانی جانوں کا ضیاع جو ہوتا ہے تو اس کی بڑی وجہ اسلحے کی فراوانی ہے جس پر قابو پانا آسان ہے تاہم اس کے لئے خلوص نیت کے ساتھ بھرپور کوشش کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں موجودہ حکومت کے ارادے نیک ہیں اس لئے امید ہے کہ ممنوعہ بور کے اسلحے کیلئے سخت قانون سامنے لایا جائے گا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ