وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز گوادر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ناراض بلوچوں سے مل کر انکی شکایات اور تحفظات سننا چاہتے ہیں انکے مطابق بلوچستان کے مسائل ماضی کے حکمرانوں نے نظرانداز کئے تو عوام احساس محرومی کا شکار ہوگئے جس سے بھارت سمیت بعض پاکستان مخالف قوتوں نے فائدہ اٹھایا تاہم سی پیک اور متعدد دوسرے منصوبوں سے بلوچستان ترقی کرے گا تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں عملاً چھوٹے صوبوں کی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سماجی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں صوبہ پختونخوا‘ بلوچستان اور سندھ کے اکثر علاقے کافی پیچھے ہیں سندھ میں پیپلز پارٹی تقریباً ہر دور میں حکمران رہی مگر اندرون سندھ کے سماجی‘ معاشی اور ادارہ جاتی حالات نہ صرف دگردوں ہیں بلکہ کراچی جیسا شہر بھی مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا بلوچستان میں ہر پارٹی حکمران رہی ہے تاہم جے یو آئی‘ بی این پی اور پختونخوا میپ پشتون اور بلوچ آبادی کی نمائندگی کرتی رہی ہیں اسکے باوجود بے پناہ قدرتی وسائل کے باوجود اس صوبے کو متعدد بنیادی مسائل اورضروریات کی عدم فراہمی کا سامنا رہا اور یہاں گزشتہ چند برسوں سے فورسز کو مسلسل حملوں کا سامنا رہا اور سی پیک گوادر پورٹ نے اسے عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے جہاں تک صوبہ خیبرپختونخوا کا تعلق ہے یہ صوبہ اسکے باوجود سندھ اور بلوچستان سے ادارہ جاتی سطح پر کافی بہتر ہے کہ یہ لمبے عرصے تک دہشت گردی کا شکاررہا یہاں زلزلے اور سیلاب آئے اور افغان مہاجرین کے علاوہ قبائلی علاقہ جات کے مسائل نے بھی اسے گھیرے میں لئے رکھا اقوام متحدہ کی سال2015-16 کے رپورٹ کے مطابق صوبہ پختونخوا کے دیہی علاقے معیار زندگی اور ترقی کی فہرست میں ساؤتھ ایشیاء میں پہلے نمبر پر تھے جبکہ تعلیم‘ صحت اور ریاستی اداروں کی مجموعی صورتحال بھی یہاں بہت بہتر رہی اسکے باوجود اس صوبے کے عوام کو وفاقی حکومت اور مین سٹریم پارٹیوں یا حکمرانوں سے متعدد شکایات رہی ہیں ان شکایات میں مرکزی حکومت کی جانب سے روا رکھا جانے والا رویہ‘ قدرتی وسائل سے استفادہ حاصل نہ کرنے کی پالیسی‘ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ‘ جرائم کا بڑھتا سلسلہ اور قبائلی علاقوں کی ترقی جیسے ایشوز اور معاملات شامل ہیں، بلوچستان کی طرح یہاں بھی مختلف ادوارمیں مختلف جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں مگر عوام اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مختلف قسم کے تجربات کئے جاتے رہے جسکا منفی اثر پختونخوا کے سماجی اور ثقافتی رویوں پر پڑتا گیا تاہم سال 2013 کے بعد تحریک انصاف بوجوہ صوبے کی ایک موثر پارلیمانی قوت کے طور پر یہاں کی پولیٹیکل سٹیٹس کو کے اندر نہ صرف داخل ہوگئی بلکہ یہ وہ واحد پارٹی ہے جو کہ صوبے کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی دفعہ دوسری بار بوجوہ اقتدار میں آگئی اوردوسری پارٹیوں کو مشکلات اور خطرے سے دوچار ہونا پڑا اگرچہ عمران خان کو پہلی بار اقتدار سے پختونخوا ہی نے نوازا اور وہ اس خطے کو اپنی سیاست کامرکز یا گڑھ سمجھتے ہیں تاہم ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہاں کے عوام اور اپنے ووٹرز کی توقعات پر پور ااترنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے بلوچستان کی طرح صوبہ پختونخوا کو بھی سیکورٹی کے چند سنگین چیلنجز درپیش ہیں، فورسز نے یہاں امن کیلئے عوام اور سیاسی کارکنوں کی طرح سب سے زیادہ قربانیاں پختونخوا میں دی ہیں وہاں تعمیر نو اور بحالی کے کاموں میں بھی ان کا مرکزی کردار رہا اور قبائلی پٹی کے پختونخوا میں ادغام کے بعد ایک اور چیلنج بھی سامنے آیا اسلئے یہاں کے حالات کو بہتر رکھنے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر رہ کر کھیلنا پڑیگا اس سلسلے میں ضروری ہے کہ اپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے تاکہ ماضی جیسے حالات سے صوبے کو بچایا جا سکے اور صوبے میں استحکام اور تعمیر نو کو یقینی بنایا جاسکے اس تاثر یا پروپیگنڈے کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے کہ کسی کے ساتھ جان بوجھ کر امتیازی سلوک کیا جارہا ہے کیونکہ ایسا سمجھنے یا کہنے سے فاصلوں اور بداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے جسکا فائدہ دوسرے اٹھاتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے حال ہی میں کئے گئے اعلانات اور اقدامات سے یہاں کی محرومیاں ختم ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔