چند اہم مسائل کا جائزہ۔۔۔۔۔

دل کے اندر کی بات خدا جانے پر بادی النظر میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہے ہیں اور اس خطے میں تمام ممالک کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے ان کے حکمرانوں سے قریبی روابط رکھ رہے ہیں ان کے ایک وفد کا حالیہ دورہ ایران اور روس اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آ رہی ہے بے شک افغانستان میں اکثریتی پارٹی کی ہی حکومت بنے گی پر اسے دیگر پاررٹیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا صرف اسی صورت میں ہی وہاں امن قائم ہو سکتا ہے۔ لگ رہا ہے کہ کورونا کی چوتھی لہر وطن عزیز میں داخل ہو چکی جسے ڈاکٹر لوگ ڈیلٹا پلس کہتے ہیں اسی واسطے حکومت ایک مرتبہ پھر متحرک ہو گئی ہے اورنظر یہ آ رہا ہے کہ اسی قسم کا لاک ڈاؤن ایک مرتبہ پھر ہونے جا رہا ہے جس سے ماضی میں ہم دوچار ہو چکے ہیں سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ جن لوگوں نے دو دو مرتبہ اس وبا کی ویکسین لگا رکھی ہے انہیں اب شاید تیسری مرتبہ بھی اس ویکسین کا ایک انجکشن لگانا پڑے کہ جسے بوسٹر کہا جا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ وباء سر دست ہمارے سروں پر موجود رہے گی۔ڈاکٹر ہنری کسنجر ایک لمبے عرصے تک امریکہ کے وزیر خارجہ رہے ہیں یہ انہی کی سیاسی کاوش کا نتیجہ تھا کہ امریکہ اور چین کے درمیان ایک لمبے عرصے کے بعد سفارتی تعلقات قائم ہوئے یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب یحییٰ خان پاکستان کے صدر تھے اورامریکہ میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے رچرڈ نکسن امریکہ کے صدر تھے اس دور میں معدودے چند ائر لائنز کوہی بیجنگ میں لینڈ کرنے کی اجازت تھی کہ جن میں پی آئی اے شامل تھی۔امریکہ کو اچھی طرح یقین تھا کہ اگر چین کیساتھ اسکے کوئی سفارتی تعلقات بنانے میں مدد دے سکتا ہے تو وہ پاکستان ہی ہے کیونکہ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی اعتماد اور محبت کا جذبہ ہمیشہ کار فرما رہا ہے اس سلسلے میں ڈاکٹر ہنری کسنجر آج سے 50برس پہلے اسی ماہ اسلام آباد پہنچے اور اور یہاں کے اور دنیا بھر کے میڈیا کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ ان کے اسلام آباد آنے کا اصلی مقصد کیا ہے وہ اسلام آباد سے پی آئی اے کے ذریعہ بیجنگ جا پہنچے وہاں چین زعماء کے ساتھ ان کی گفتگو ہوئی اس بات کی خبر صرف پاکستان کو تھی۔ چینی لیڈرشپ کے ساتھ چند گھنٹے چیت کرنے کے بعد وہ واپس اسلام آباد آ گئے تو تب کہیں جا کر اس خبر کو ریلیز کیا گیا کہ امریکہ اور چین نے آپس میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں عنقریب امریکی صدر چین کا دورہ کریں گے بالفاظ دیگر چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات قائم قائم کرنے میں پاکستان نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے جسے چین کی قیادت آج بھی اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے اور چین میں پاکستان کے لئے حکومتی اور عوامی سطح پر جو خیر سگالی اور دوستی کے جذبات ہیں ان کا ایک وسیع پس منظر ہے چینی قوم اس بات کا احساس رکھتی ہے کہ پاکستان میں مشکل وقت میں ان کو بین الاقوامی دھارے میں شامل کرکے جو اہم قدم اٹھایا اس کے اثرات دوررس اہمیت کے حامل ثابت ہوئے اور چین نے اپنے آپ کو عالمی طاقت کے طور پر سامنے لانے کی جدوجہد شروع کی جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے اور پاکستان نے جو ابتدائی مدد فراہم کی اس کا شاندار نتیجہ سامنے آیا۔یہ لمبی تمہید ہم نے اس لئے باندھی کہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کے مندرجہ بالا دورہ امریکہ کو آج نصف صدی گزر چکی آج سے 50برس قبل اسی ماہ وہ چین گئے تھے اور اس موقع پر اگلے روز انہوں نے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ اور چین آپس میں تعلقات اچھے کر لیں کیونکہ ان کے تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے وہ مزید بڑھی تو اس سے دنیا دو واضح کیمپوں میں تقسیم ہو جائے گی اور اس سے دنیا کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ کسنجر کی عمر سو سال کے قریب ہے اور آج بھی اس عمر میں ذہنی طور وہ کافی متحرک ہیں اور اور اہم سیاسی امور پر اب بھی وہ تبصرے کرتے رہتے ہیں اور امریکی قیادت ان کی تجاویز سے استفادہ کرتی رہتی ہے۔