ایک عام پاکستانی کو ہمیشہ اس بات کا افسوس رہے گا کہ ر وز اول سے ہی بھارت پاکستان کے وجود کا مخالف تو ہے ہی تاہم اس نے اپنے تحریبی عزائم کیلئے ہمیشہ افغانستان کی سرزمین استعمال کی اورافغانستان کی دوستی سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ افغانستان کے مختلف شہروں میں ضرورت سے زیادہ قونصل خانے قائم کرکے وہ ان کے ذریعے پاکستان کے اندر شر پھیلا رہا تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری رہا۔کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ افغانستان حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو خوشگوار بنا کر اس کے ذریعے نہ صرف اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کو ممکن بنائے بلکہ پورے خطے کی خوشحالی کو ممکن بنائے۔ پاکستان نے کبھی افغانستان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ یا کسی اور ملک کے ساتھ تعلقات نہ رکھے بلکہ پاکستان محض اتنا چاہتا ہے کہ پڑوسی ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس نے ہر مشکل میں افغانستان کاساتھ دیا ہے اور بندر گاہ سے محروم اس ملک کو دسرے ممالک یا پھر پوری دنیا سے جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب بھی افغانستان میں امن کے حوالے سے جتنی کوششیں پاکستان نے کی ہیں اور افغانستان کی بد امنی سے جس قدر متاثر ہو اہے شاید ہی کوئی اور ملک اس کی مثال پیش کر سکے۔افغان مہاجرین کو جس طرح فراخدلی سے پاکستان نے اپنے ہاں آباد کیا اور ان کی تمام ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کیا وہ پوری دنیا دیکھ چکی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرچکی ہے۔ باجود اس کے اگر افغانستان کے کچھ حلقوں میں پاکستان کیلئے نرم گوشہ پیدا نہیں ہوتا تو اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک سرحدات کا تعلق ہے افغانستان کی سرحدیں پاکستان سے براہ راست ملتی ہیں اور اس قسم کی بھارت کے ساتھ تو اس کی کوئی جغرافیایی قربت نہیں ہے اور جیسے کہ پہلے ذکر کیا کہ اس کی روزمرہ کی بیرونی تجارت کا انحصار پاکستان پر ہے اگر افغان قیادت میں رتی بھر صرف یہ احساس بھی پیدا ہو گیا ہوتا کہ پاکستان سے وہ اپنے تعلقات خوشگوار رکھ کر اپنی معیشت کو ہزار درجے بہتر کر سکتا ہے تو وہ افغانستان کیلئے کافی بہتر ہو سکتاتھا، بھارت سے دوستی اور اس کے نتیجے میں پاکستان مخالف رویہ اپنا کر نہ صرف اس نے اپنی تجارت کا بیڑہ غرق کیا اس خطے میں انتشار کی فضا بھی پیدا کی۔علامہ اقبال تو یہ بات کر گئے ہیں کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر۔ مسلم ممالک کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے اور اگر دیکھا جائے تو آدھی دنیا کے توانائی کے ذرائع ان کے پاس ہیں تاہم۔ضرورت ایک اسلامی معاشی بلاک بنانے کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کو فروغ دیں اور یورپی یونین کے طرز پر ایک ایسا مکینزم بنائیں کہ آپس میں ان کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوں اور ایک ملک کی معاشی ترقی سے دوسرے اسلامی ممالک بھی بھر پور استفادہ کرسکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں لاہور میں مسلم ممالک کے سربراہان مملکت کو ایک پلیٹ فارم ہر جمع کرنے کی کوشش ضرور کی تھی اور اس وقت لگ یہ رہا تھا کہ مسلم اتحاد کہ یہ بیل اب منڈیر چڑھ جائے گی پرہمارا المیہ یہ ہے کہ اس مشن کو پھر آ گے نہ بڑھایا جا سکا بھٹو کے ساتھ عمر نے وفا نہ کی اور ان کے بعد ان جیسا سیاسی وژن رکھنے والا کوئی سیاسی لیڈر سامنے نہ آسکا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ دنیا کے مسلم ممالک کو یورپی یونین کی طرح ہی کم از کم اتحاد کرنا چاہئے یا نیٹو کی طرح ان کو عسکری لحاظ سے ایک دھاگے میں پرودینا چاہئے۔اس وقت پوری دنیا کو معاشی مشکلات اور چیلنجز درپیش ہیں ایسے میں اگر خدانخواستہ افغانستان میں خانہ جنگی چھڑ جاتی ہے اور وہاں سے افغان مہاجرین کا اایک لشکر پاکستان کا رخ کرتا ہے تو اس سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں جن کیلئے ابھی سے تیاری کی ضرورت ہے۔