افغانستان کا دھندلا مستقبل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں امریکہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں افغان نیشنل آرمی کے جوانوں کو قتل کروا کے دوبارہ افغانستان میں ایسے حالات تو نہیں پیدا کر رہا کہ جن کو جواز بنا کر وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے دوبارہ اس علاقے پر چڑھائی کر سکے؟ یہ بات سوچ طلب ہے افغانستان میں اگر خانہ جنگی چھڑتی ہے تو اس سے سب سے زیادہ نقصان چین کو ہو گا کہ اس سے اس کے کئی ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہو کر رہ جائیں گے امریکہ اگر ایک طرف سی پیک کا بیری ہے تو دوسری جانب وہ کیوبا اور لاطینی امریکہ کے ان ممالک میں بھی انتشار پیدا کر رہاہے کہ جہاں چین ون بیلٹ ون روڈ کے تحت ترقیاتی منصوبے بنا رہاہے۔تا دم تحریر جنگ کے بادل آسمان پر منڈلا رہے ہیں۔افغانستان سے امریکہ اپنی افواج کبھی نہ نکالتا اگر طالبان نے ان کے دانت کھٹے نہ کئے ہوتے جس طرح 1960 کے عشرے میں ویٹ کانگ نے ویٹ نام میں امریکی افواج کا حشر نشر کر دیا تھا اور ان کا مزید وہاں رہنا محال ہو گیا تھا بالکل اسی طرح افغانستان میں طالبان نے امریکی فوج کی ایسی در گت بنائی کہ اس کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے طالبان کے جذبہ حریت کے آ گے امریکی ٹیکنالوجی کسی کام نہ آ سکی۔امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کی اب تمام تر توجہ اس بات پر ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے روس اور چین کے درمیان آ پس میں رخنہ ڈالا جائے کیونکہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ چین اور روس بیک وقت امریکہ کے خلاف یکجا ہوئے ہوں ماضی میں اگر چین بھارت کا دشمن تھا تو سویٹ یونین کم از کم اس کا حلیف تھا آج روس بھارت سے کافی دور اس لئے ہو گیا ہے کہ بھارت نے اپنے تمام انڈے امریکہ کی باسکٹ میں رکھ دئیے ہیں جو اس وقت روس کا سخت مخالف ہے افغانستان کے اندر بھارت کو اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اگر افغانستان میں بھارتی مداخلت کم ہو گی تو اس سے پاکستان میں امن عامہ کے امکانات کافی روشن ہو جائیں گے۔بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر جس شدت سے سے ایران اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک کا گزشتہ چند روز سے دورے کر رہے ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کو یہ احساس ہے کہ اس خطے میں ابھرتے ہوئے نئے سیاسی حالات کے پیش نظر بھارت کی پوزیشن اب وہ نہیں رہی جو کہ چند ماہ پہلے تھی۔بھارت کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں افغانستان کے نئے سیٹ اپ میں اس کی وہ پوزیشن نہ رہے کہ جو اب تک رہی ہے وہ افغانستان میں اپنی بے پناہ سرمایہ کاری کے مستقبل کے بارے میں بھی پریشان ہے اس طرح اسے یہ فکر بھی دامنگیر ہو گئی ہے کہ گزشتہ کئی عرصے سے تاجکستان میں اس نے اپنے جو دو ہوائی اڈے بنا رکھے تھے ان کا مستقبل کیا ہوگا یہ درست ہے کہ افغانستان کے اندر جو نیا حکومتی سیٹ اپ ہوگا اس میں  اکثریت طالبان کی ہوگی اس لئے شاید بھارت مستقبل قریب میں افغانستان میں وہ من مانیا ں نہ کرسکے جو ماضی میں وہ کرتاآ یا ہے پاکستان کے خلاف شاید اب وہ افغانستان کی سرزمین کو استعمال نہ کر سکے اور یہ امر اس کے لئے یقینا سیاسی طور پر بہت بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔ اگر تو طالبان نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے تو اب کی دفعہ جب وہ عنان حکومت اپنے یاتھ میں لیں گے تو ان کے رویوں میں کافی تبدیلی نظر آ نی ضروری ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ انہیں اپنی حکومت کے ڈھانچے میں افغانستان میں رہنے والی تمام قومیتوں کے نمائندوں کو مناسب نمائندگی دینی ہوگی تاکہ کسی قوم یا قبیلے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو طالبان کو تعلیم نسواں پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ افغانستان میں زندگی کے مختلف شعبوں میں انہیں بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی اور اپنے ملک میں تعلیم خصوصا سائنسی تعلیم کے فروغ کیلئے مناسب انتظامات کرنے ہوں گے سب سے ضروری بات یہ ہوگی کہ نئی حکومت افغانستان میں عام انتخابات کیلئے ایک ایسا الیکٹورل سسٹم مرتب کرے کہ جس کے تحت ایک مناسب وقفے کے بعد افغانستان کے عوام اپنے نمائندے چن سکیں۔