افغانستان کی حالیہ صورتحال اور علاقائی قوتوں کی نئی صف بندی کی سرگرمیوں نے جہاں امن پسند حلقوں کو پیچیدہ مسائل سے دوچار کردیا ہے وہاں پاکستان کی مشکلات اور عوام کے تحفظات کو بھی بڑھا دیا ہے یہ بات سب کو معلوم تھی کہ انٹرافغان ڈائیلاگ کی ناکامی کی صورت میں افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا تاہم اس بات کا اندازہ غالباً کسی کو نہیں تھا کہ طالبان اتنی جلدی پیش قدمی کرلیں گے اور افغان فورسز کی عملی مزاحمت برائے نام یا علامتی ثابت ہوگی شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ دوسروں کے علاوہ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کو بھی جولائی کے پہلے ہفتے کے دوران یہ کہنا پڑا کہ طالبان کی تیز رفتار پیشقدمی پر ان کو بھی بہت حیرت ہو رہی ہے امریکی اور برطانوی میڈیا نے12جولائی کو رپورٹ کیا کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے20 برسوں کے دوران افغان فورسز پر جو اربوں کی سرمایہ کاری کی تھی وہ عام ہتھیاروں سے لیس طالبان جنگجوؤں کے سامنے وہ نتائج نہ دے سکی جسکی امریکہ کو توقع تھی اگرچہ کابل سمیت دوسرے بڑے شہر افغان حکومت کے قبضے میں ہیں اور معمولات زندگی پر بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے تاہم کابل سے سفارتکاروں‘ سرمایہ داروں اورتعلیم یافتہ حلقوں کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور ریکارڈ تعداد میں ہزاروں شہری پاسپورٹ آفسز کے سامنے کھڑے نظرآتے ہیں بھارت نے قندھار کی اپنی قونصلیٹ بند کردی ہے جبکہ متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نکل آئیں طالبان نے امریکی صدر جوبائیڈن کے ایک بیان پر ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو چند دنوں میں کابل پر بھی قبضہ کرسکتے ہیں تاہم فی الحال ایسا کرنا انکی حکمت عملی میں شامل نہیں ہے۔زلمے خلیل زاد بعض اہم ممالک کے دورے پر نکل پڑے ہیں جبکہ دوسری طرف چین‘ روس اور ایران کی مصالحتی کوششوں اور رابطہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم طالبان ذرائع نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ کابل حکومت کے ساتھ مصالحت کی اب ان کو نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی خواہش۔موجودہ صورتحال میں پاکستان کی تمام توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے جائیں اس ضمن میں پشاور اور کوئٹہ سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ان علاقوں کی سیکورٹی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے جو کہ افغان سرحد کے ساتھ لگے ہوئے ہیں تاکہ کشیدگی کی صورت میں ماضی والی صورتحال پیدا نہ ہو اگرچہ طالبان رہنما اور ترجمان بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے تاہم صورتحال میں کسی بھی وقت کوئی بھی ڈرامائی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے اسلئے سنٹرل ایشین ریاستوں اور ایران کی طرح پاکستان بھی مختلف اقدامات کر رہا ہے پاکستان نے بلوچستان اور پختونخوا کی سرحدوں کی نگرانی اور سیکورٹی سخت کردی ہے حالانکہ ماضی کے مقابلے میں تاحال افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقے طالبان کی یلغار سے محفوظ ہیں اور اب کے بار انہوں نے اپنی کاروائیوں کی شروعات شمالی اور مرکزی افغانستان سے کی ہیں پھر بھی پاکستان کے حکام بدلتی صورتحال کے پیش نظر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ماضی والی صورتحال پیدا نہیں ہوگی اگرچہ پاکستان افغان مہاجرین کی متوقع آمد کے بارے میں واضح کرچکا ہے کہ پہلے سے لاکھوں مہاجرین کی موجودگی اور سیکورٹی کے بعض تحفظات کے تناظر میں وہ مزید مہاجرین کو آنے نہیں دے گا تاہم یو این ایچ سی آر کے بعض حکام کا کہنا ہے کہ وہ متعلقہ پاکستانی اداروں اور حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور خدشہ ہے کہ اگر کشیدگی اور جنگ میں اضافہ ہوا تو پانچ سے دس لاکھ تک مزید مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں انکے مطابق پاکستان اب کے بار ایسی صورت میں متوقع مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھنے کی پالیسی اپنا سکتا ہے، دیکھا جائے تو افغانستان کے موجودہ حالات غیر متوقع نہیں ہیں اور اسکی زیادہ ذمہ داری امریکی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔