آخری آ پشن۔۔۔۔

اس خطے میں آ ج بھارت اپنے آ پ کو سیاسی طور پر تنہا سمجھ رہاہے اسے چین کی سردمہری کا تو ایک عرصے سے سامنا تھا ہی اب اس دن سے اسے روس بھی گھاس نہیں ڈال رہا کہ جس دن سے اس نے امریکہ سے محبت کی پینگیں بڑھائیں ہیں۔ افغانستان کے اندرونی حالات سے بھی وہ ششدر ہے اگر وہاں ایسی حکومت جڑ پکڑ لیتی ہے کہ جس میں ان عناصر کی اکثریت ہو جو بھارت کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ نہیں رکھتے تو اس نے سفارتی مالی اور سیاسی سطح پر افغانستان میں اب تک جو کام کیا ہے اس سب پر پانی پھر سکتا ہے چونکہ امریکہ افغانستان سے باہر نکل چکا ہے بھارت بھی اس لئے بیک فٹ پر آ گیا ہے ورنہ افغانستان میں اس کے ہم خیال اب بھی موجودہیں جیسا کہ اشرف غنی عبداللہ عبداللہ رشید دوستم امر صالح وغیرہ وغیرہ روس اور چین کے ایک پیج پر آ جانے سے بھارت کو سخت دھچکا لگا ہے گزشتہ جمعہ کے روز تاشقند میں عمران خان نے افغان صدر کے ایک الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر کرارا جواب دیا کہ جب ہم کہہ رہے تھے کہ طالبان سے بات چیت کرو تب تو آپ خاموش تھے اور اب جب کہ وہ فتح کے قریب ہیں وہ کیونکر کسی کی بات سنیں گے افغانستان کا ایک رہنما امر صالح ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے اگلے روز اس نے پھر ہمارے خلاف دروغ بیانی کی ہے کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب اس کی غلط بیانیوں کیخلاف بطور احتجاج تاشقند کے اجلاس سے واک اوٹ کر گئے ہوتے تو بہتر تھا 1969 کی بات ہے او ای سی کا رباط میں اجلاس ہونے والا تھا جب اس وقت کے ہمارے صدر کو پتہ چلا کہ بھارت کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے تو انہوں نے اس اجلاس کا بایکاٹ کرنے کی دھمکی دے دی جس کا پھر نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کو اس اجلاس میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکمرانوں کو کبھی کبھی غیر روایتی قسم کے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ سردست یہ تو وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ17 جولائی سے لے کر انیس جولائی2021  کے دوران اسلام آباد میں افغانستان کے بارے میں جو امن کانفرنس ہونی تھی وہ کیوں ملتوی کر دی گئی ہے پر لگ یہ رہا ہے کہ انہی دنوں میں دوحا میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جو مذاکرات ہونے والے ہیں شاید ان کی وجہ سے اسلام آباد والی کانفرنس کو فی الحال التوامیں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہو عین ممکن ہے کہ اس کالم کے چھپنے تک دوحا کانفرنس میں دونوں فریقین کسی حتمی نتیجے تک پہنچ چکے ہوں سیاسی مبصرین کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ افغان مسئلے پر پاکستان افغانستان ازبکستان اور امریکہ پر مشتمل چار ملکی نئے اتحاد کی تشکیل کی آخر کیا ضرورت کیا تھی کہیں امریکہ پھر کوئی نئی چا ل تو نہیں چل رہا؟افغانستان کے مسائل کو اگر سنجیدگی سے حل کرنا مقصود ہے تو کوئی بھی اتحاد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا کہ جب تک افغانستان میں اس وقت موجود تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ان کے نمائندوں کو اس میں شامل نہ کیا جائے مختلف وجوہات کی بنا پر اس قسم کے اتحاد میں ایران ترکی روس اور چین کا شامل کرنا بھی از حد ضروری ہے نیز تاجکستان اور وسطی ایشیا کے اور کئی ممالک کو بھی اس ضمن میں اعتماد میں لینا بھی از حد ضروری ہے۔ بد قسمتی سے افغانستان کو شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد جو رہنما ملے ان میں اکثریت ایسے افراد کی تھی کہ جنہوں نے اقتدار کو دوام دینا اپنا مقصد بنائے رکھااور ان کی آج بھی یہ کوشش ہے کہ افغانستان میں آئندہ جو بھی پولیٹیکل سیٹ اپ بنے اس میں ان کا کہیں نہ کہیں حصہ بخرہ ضرور ہونا چاہئے۔ خدا کرے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جو جو مذاکرات چل رہے ہیں اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے پر اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ایک آپشن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی افواج افغانستان میں امن عامہ قائم رکھنے کیلئے اس کا نظم و نسق سنبھالیں اور اقوام متحدہ کی ہی نگرانی میں افغانستان میں عام انتخابات کروا کے جیتنے والی پارٹی کو اقتدار حوالے کیا جائے کہ مزید خونریزی روکنے کیلئے اس سے بہتر کوئی اور رستہ نہیں ہے۔